میانمار کی شمالی ریاست رکھائن میں روہنگیا شدت پسندوں کے سرحدی علاقے میں سیکیورٹی چیک پوسٹوں پر مبینہ حملے کے نتیجے میں درجنوں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 92 افراد ہلاک ہوگئے۔

رکھائن مذہبی منافرت کی وجہ سے شورش زدہ ریاست بن چکی ہے جہاں بے ریاست اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کو غیر قانونی مہاجر مانا جاتا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق شورش زدہ ریاست میں ایک بار پھر تشدد کی آگ بھڑک اٹھی ہے، جس میں جمعہ سے اب تک سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 92 افراد ہلاک اور ہزاروں شہری اپنے گھر چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کے لیے مجبور ہوچکے ہیں۔

رکھائن کے دور دراز علاقوں سے اپنے گھروں کو چھوڑنے والے ہزاروں خوفزدہ افراد بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ مشتبہ روہنگیا عسکریت پسند اور میانمار کی سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں اب بھی جاری ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار آپریشن، ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کی بنگلہ دیش نقل مکانی

بنگلہ دیش میں، جو پہلے ہی ہزاروں مہاجروں کی میزبانی کر رہا ہے، روہنگیا مسلمانوں کو ناپسند کیا جاتا ہے۔

انتظامیہ کا کہنا تھا کہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات کی تلاش کرنے والی 2 ہزار روہنگیا خواتین و بچے ہفتہ کے روز میانمار اور بنگلہ دیش کے سرحدی علاقے پر جمع ہوئے، تاہم انہیں بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔

اُکھیا ٹاؤن میں بنگلہ دیشی بارڈر گارڈ کے سربراہ منظرالحسان خان نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ ’سرحد پر جمع ہونے والے تمام افراد خواتین کو بچے ہیں، سرحد پر بارڈر گارڈز کی پیٹرولنگ جاری ہے اور ان افراد کو بنگلہ دیش کی حدود میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔‘

مزید پڑھیں: میانمار :’فوج مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف‘

تاہم رپورٹ میں کہا گیا کہ سیکڑوں افراد ہفتہ کی صبح شدید بارش کے باعث پیٹرولنگ میں نرمی کے باعث سرحد پار کر گئے۔

سرحدی علاقے میں سیکیورٹی چیک پوسٹوں پر مبینہ طور پر حملہ کرنے والے مسلح افراد کا تعلق گزشتہ سال منظر عام پر آنے والی آراکان روہنگیا سلویشَن آرمی (اے آر ایس اے) سے بتایا جاتا ہے، جنہوں نے چاقوؤں، بندوقوں اور دیسی ساختہ بارودی مواد سے سیکیورٹی پوسٹوں پر حملہ کیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں