اسلام آباد: نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے خواجہ سرا افراد کی رجسٹریشن کی پالیسی کو اَپ گریڈ کردیا جس کے بعد والدین کے بارے میں معلومات نہ رکھنے والے خواجہ سرا بھی کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈز (سی این آئی سی) حاصل کرسکیں گے۔

اس سے قبل نادرا نے صرف ایسے خواجہ سراؤں کو رجسٹریشن کے لیے اپلائی کرنے کی اجازت دی تھی جن کے پاس اپنے والدین کے سماجی بہبود افسر سے تصدیق شدہ دستاویزات موجود تھیں جبکہ ایسے افراد جن کے پاس یہ دستاویزات موجود نہیں تھیں وہ شناختی کارڈ حاصل نہیں کرسکتے تھے۔

اس حوالے سے ترجمان نادرا کا کہنا تھا کہ خواجہ سرا افراد کی بڑی تعداد ایسی ہے جن کے پاس اپنے والدین کی درست معلومات اور دستاویزات موجود نہیں کیونکہ ان کے اہل خانہ نے بہت کم عمر میں انہیں چھوڑدیا تھا۔

نئی پالیسی کے تحت وہ خواجہ سرا جنہیں اپنے والدین کے بارے میں علم نہیں، اپنے گرو کے حوالے سے شناختی کارڈ حاصل کرنے کے لیے نادرا میں رجسٹریشن کی درخواست دے سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں خواجہ سراؤں کی تعداد کتنی؟

واضح رہے کہ یہ نئی پالیسی لاہور ہائی کورٹ کے احکامات کی روشنی میں تشکیل دی گئی ہے۔

نادرا نے اپنے والدین کے بارے میں معلومات نہ رکھنے والے یتیم بچوں کی رجسٹریشن کے لیے بھی مماثل پالیسی تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پالیسی کے تحت پہلے سے رجسٹر شدہ گرو کو درخواست گزار خواجہ سرا کے گھر کا سربراہ سمجھا جائے گا جو بائیومیٹرک تصدیق فراہم کریں گے۔

اس کے علاوہ کوئی بھی شناختی کارڈ رکھنے والا شخص درخواست گزار کا گواہ بن سکتا ہے جبکہ اس طرح کے کیسز کی قانونی حیثیت کی تصدیق کے لیے نادرا کا نگراں محکمہ ہر 6 ماہ بعد جائزہ لے گا۔

مزید پڑھیں: خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق بل کا مسودہ تیار

نئی پالیسی پہلے سے شناختی کارڈ رکھنے والے خواجہ سراؤں کو نادرا کے ڈیٹا بیس میں گرو کی حیثیت سے اپنا اندراج کرانے کی اجازت دے گی۔

گرو کی حیثیت سے رجسٹریشن کے لیے خواجہ سرا کے شناختی کارڈ کی کاپی اور فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کی جانب سے تصدیق شدہ بیان حلفی جمع کرانے کے ضرورت ہوگی۔

نادرا کے مقامی ہیڈ آفس سے تصدیق کے بعد دستاویزات ہیڈکوارٹرز کو پہنچادی جائیں گی تاکہ ڈیٹا بیس میں گرو کی رجسٹریشن مکمل ہوسکے۔

واضح رہے کہ خواجہ سرا افراد کو رجسٹر کرنے کی پالیسی دسمبر 2009 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے میں دی جانے والے ہدایات کے بعد تشکیل دی گئی تھی۔


یہ خبر 30 اگست 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں