افغان سفیر ڈاکٹر عمر زخیلوال کا کہنا ہے کہ افغانستان، بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو نقصان نہیں پہنچائے گا اور تسلیم کیا کہ افغان صورتحال کے باعث پاکستان نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں بھاری قیمت ادا کی تاہم افغان سرزمین پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی محفوظ پناہ گاہیں اور دونوں ممالک میں شدید بداعتمادی کی فضاء کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

افغان سفیر نے "دوطرفہ مفاہمت کے مواقع اور چیلنجز" کے موضوع پر پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے منعقدہ گول میز مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دوطرفہ تعلقات کے حوالے سے ماحول تیزی سے تبدیل ہورہا ہے جبکہ پاکستان اور افغانستان کے مابین بہت سے حل طلب مسائل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں امن افغانستان میں دیرپا امن کے قیام سے ہی ممکن ہے اور کسی تیسرے ملک پر تکیہ کرنے کے بجائے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مفاہمت کے ذریعے بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: ’پاک افغان کشیدگی کم کرانے کیلئے لندن میں اجلاس طلب‘

انہوں نے تسلیم کیا کہ دونوں ممالک کے تعلقات سنگین عدم اعتماد کا شکار ہے جبکہ دونوں ممالک کی ثقافت، تاریخ، جغرافیہ اور اقتصادیات ایک دوسرے پر منحصر ہے۔

ان کا دعویٰ تھا کہ پاکستان کو اکیلا کرنے یا تنہا کرنے میں افغانستان کبھی حصہ دار نہیں بنے گا کیونکہ پاکستان کو تنہا کرنا افغانستان کے مفاد میں نہیں اور ہمیں ایک دوسرے کو سالمیت و خودمختاری کے تحفظ کی یقین دہانی کرانا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو افغانستان کے بھارت سے تعلقات کو بھی مثبت انداز میں دیکھنا ہوگا اور ’ہم یقین دلاتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ مل کر افغانستان پاکستان کو نقصان نہیں پہنچائے گا‘۔

افغان سفیر کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک عدم استحکام کا شکار رہے تو جنوبی و وسطی ایشیاء کے مابین پل نہیں بن سکیں گے جبکہ عدم اعتماد کی فضاء ختم ہوگی تو دونوں ممالک میں عوامی خوشحالی کی بنیاد پڑے گی۔

یہ بھی پڑھیں: پاک-افغان تجارتی مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ جوڑنے کا فیصلہ

انہوں نے زور دیا کہ پاکستان خوشحال ہوگا تو افغانستان بھی آگے بڑھے گا جبکہ دونوں ممالک کے عوام بہترین دوطرفہ تعلقات چاہتے ہیں، ’دوطرفہ سطح پر عوام آزادانہ تجارت، کاروبار، تعلقات کے خواہاں ہیں‘۔

اس موقع پر افغان سفیر سے سوال کیا گیا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات کیوں خراب ہیں؟ جس پر عمر زخیلوال کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک یا ریاستوں نے تعلقات میں بد انتظامی سے کام لیا اور افغانستان کی جانب سے پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات میں توازن نہیں رکھا گیا جبکہ افغانستان، امریکا اور چین پر انحصار کرتا رہا لیکن پاکستانی ریاستی اداروں کے خلاف بدزبانی کی گئی تاہم پاکستان نے بھی افغانستان کے ریاستی اداروں میں مداخلت کی۔

افغان سفیرنے مزید کہا سرحد پر رکاوٹیں کھڑی کرنا اور راہداری کے مسائل پیدا کیے گئے جبکہ پاکستان کو بھی افغانستان کو آزادانہ حیثیت میں دیکھنا ہو گا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ پاکستان نے سمجھ لیا کہ اب افغانستان کا ہر معاملہ اسلام آباد طے کریگا جبکہ پاکستان کو افغان سالمیت کا خیال رکھنا چاہیے اور ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: نئی افغان پالیسی: ٹرمپ کا پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینےکاالزام

ان کا مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان کو افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسی بدلنا ہوگی جبکہ پاکستان میں بھارت کے حوالے سے بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔

افغان سفیر نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کو دوطرفہ امور اور اپنے مفادات کو دیکھنا چاہیے اور کسی تیسرے ملک سے تعلقات پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات کو نقصان نہ پہنچائیں جبکہ ہماری سرزمین کسی غیر ریاستی عناصر یا دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہوسکے۔

خیال رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کافی عرصے سے بد اعتمادی کی فضاء قائم ہے جس کی وجہ افغانستان حکومت کا پاکستان کے روایتی حریف بھارت پر انحصار بڑھانا ہے جبکہ افغان حکومت کا الزام ہے کہ پاکستان ان کے ملک میں مداخلت کا ذمہ دار ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں