اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے حکومت کو لاپتہ افراد سے متعلق سینیٹ کی جانب سے بھیجی گئی سفارشات کا جائزہ لینے، جسٹس منصور کمال کی لاپتہ افراد سے متعلق رپورٹ اور ورکنگ گروپ آف یو این کی سفارشات کو پبلک کرنے کی سفارش کردی۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی سینیٹر نسرین جلیل کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس ہوا۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر نسرین جلیل نے جبری گمشدگیوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ملوث قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'جو لوگ اٹھاتے ہیں ہم ان ہی کو تحقیقات کا کہہ دیتے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی لوگوں کو اٹھارہے ہیں اور لاپتہ افراد کو عدالتوں میں بھی پیش نہیں کیا جاتا'۔

مزید پڑھیں: ’لاپتہ افراد‘ کے اہل خانہ کی غمزدہ کردینے والی کہانیاں

نسرین جلیل کا کہنا تھا کہ لوگ دیکھتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے آکر لوگوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں اور بعد میں لاپتہ افراد کی تشدد شدہ لاشیں ملتی ہیں۔

انہوں نے سوال کیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی قانون کی پاسداری نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟

چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ ملک سے کئی ہزار لوگ غائب ہیں، صرف سندھ سے 502 لوگ لاپتہ ہیں۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے لاپتہ افراد کے بڑھتے ہوئے واقعات اور لاپتہ افراد سے متعلق کمیشن کے حکام کی عدم موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: لاپتہ افراد کی کہانی کا دوسرا رخ

اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اور تمام ادارے لاپتہ افراد کے معاملے پر ناکام ہو چکے ہیں۔

کمیٹی نے نشاندہی کی کہ لوگوں کو اٹھا لیا جاتا ہے اور کوئی سزا نہیں دی جاتی۔

فرحت اللہ بابر نے مزید کہا کہ لاپتہ افراد کے معاملے میں ملوث افراد کی شناخت کے باوجود ان کو سزا نہیں دی گئی، اس معاملے پر کمیشن کی کارکردگی پر کئی سوالات اٹھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کمیشن بعض جگہوں پر ناکام ہوگیا ہے۔

اس موقع پر رکن کمیٹی سینیٹر کریم خواجہ نے کہا کہ پاکستان کو خود ہی معاملہ حل کرنا چاہیے، معاملہ اقوام متحدہ میں گیا تو ملک کی بدنامی ہوگی۔

مزید پڑھیں: لاپتہ افراد کو ایک ہفتے میں بازیاب کروایا جائے: عدالتی حکم

اجلاس کے دوران اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی کہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120 لاہور میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے دوران مبینہ طور پر لوگوں کو لاپتہ کیا۔

بعد ازاں چیئرمین نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس نے کمیٹی کو بتایا کہ ملک میں لاپتہ افراد سے متعلق کوئی قانون ہے اور نہ ہی لاپتہ افراد کی تشریح واضح ہے۔

جس کے بعد کمیٹی نے حکومت کو سینیٹ کی جانب سے بھیجی گئی سفارشات کا جائزہ لینے، جسٹس منصور کمال کی لاپتہ افراد سے متعلق رپورٹ اور ورکنگ گروپ آف یو این کی سفارشات کو پبلک کرنے کی سفارش کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں