اقوام متحدہ میں میانمار کے سفیر نے متعدد ممالک کی جانب سے رخائن میں جاری صورت حال پر دیئے جانے والے بیانات پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ میانمار میں مسلمانوں کی نسل کشی نہیں کی جارہی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق میانمار کے سفیر ہان ڈو سوان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جاری اجلاس کے چھٹے روز اپنے جواب کے حق کا استعمال کرتے ہوئے دنیا کے متعدد ممالک کی جانب سے 193 ارکان کی عالمی باڈی میں دیئے جانے والے بیانات کو ’غیر ذمہ دار بیان‘ اور ’غیر قانونی الزامات‘ قرار دیا۔

انہوں نے کسی ملک کا نام نہیں لیا جیسا کہ متعدد ممالک نے 25 اگست کے بعد میانمار سے ہجرت کرنے والے 4 لاکھ 20 ہزار روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے بات کی تھی۔

مزید پڑھیں: میانمار فوج کی ’نسل کشی‘ مہم میں خواتین سے ریپ کا انکشاف

یاد رہے کہ میانمار حکومت پر الزام لگانے والوں میں بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گیتریز، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چیف زید رعد الحسین اور اسلامی ممالک میں متحدہ عرب امارات شامل ہیں تاہم میانمار کے سفیر نے ان دعوؤں کو مسترد کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’کوئی نسل کشی نہیں کی جارہی اور نہ ہی نسل پرستی کا عنصر موجود ہے‘۔

میانمار کے سفیر کا کہنا تھا کہ ’میانمار کے رہنما جو طویل عرصے سے آزادی اور انسانی حقوق کے لیے جدو جہد کررہے ہیں، ایسی پالیسز کی حمایت نہیں کرسکتے، ہم نسل کشی کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہے ہیں‘۔

انہوں نے روہنگیا ریاست کے مسئلے کو انتہائی پیچیدہ قرار دیا اور زور دیا کہ اقوام متحدہ کی رکن ریاستیں اور بین الاقوامی کمیونٹی کو شمالی رخائن کی صورت حال کا بغور اور غیر جانبدار انداز میں جائزہ لینا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار میں ہندو افراد کی اجتماعی قبر برآمد

انہوں نے آراکان روہنگیا سیلویشن آرمی (اے آر ایس اے) کی جانب سے حملوں کے آغاز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ ہر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف لڑیں اور معصوم عوام کا تحفظ کریں‘۔

25 اگست کے حملے اور سیکیورٹی آپریشن کے حوالے سے میانمار کے سفیر کا کہنا تھا کہ ’متعدد بچوں اور خواتین کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا‘ جبکہ مردوں کو اے آر ایس اے میں بھرتی کیا گیا تاکہ میانمار کی سیکیورٹی فورسز کے خلاف لڑا جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردوں نے ہر جگہ آئی ای ڈی نصب کیے، پلوں کو اڑایا گیا اور افراتفری پھیلائی گئی‘۔

خیال رہے کہ 25 اگست کو میانمار میں آراکان روہنگیا آرمی کی جانب سے سرکاری فورسز پر حملے کے بعد ریاست رخائن میں مسلمانوں کے خلاف کارروائی شروع کی گئی تھی جس کے بعد سیکڑوں مسلمان جاں بحق ہوئے جبکہ لاکھوں کی تعداد میں نقل مکانی پر مجبور ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں: میانمار میں تشدد کی نئی لہر:20 گھر نذرآتش، بم دھماکا

ابتدائی طور پر اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ میانمار کی ایک ریاست میں فوجی بیس پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد شروع ہونے والی کارروائی کے نتیجے میں 38 ہزار روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کی جانب ہجرت کرچکے۔

میانمار کی فوج کا کہنا ہے کہ وہ 'دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں' کے خلاف کارروائی کررہی ہے کیونکہ عوام کا تحفظ ان کا فرض ہے۔

دوسری جانب روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انھیں بے دخل کرنے کے لیے قتل وغارت کی مہم شروع کی گئی۔

میانمارکی فوج کی جانب سے جاری اطلاعات کے مطابق جھڑپوں اور کارروائیوں کے دوران 370 روہنگیا عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا جبکہ 13 سیکیورٹی فورسز، دو سرکاری اہلکار اور 14 عام افراد بھی مارے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: 'میانمار، بنگلہ دیش میں موجود روہنگیا مسلمانوں کو واپس لے'

یاد رہے کہ 2012 میں ہونے والے فرقہ وارانہ واقعات میں 200 افراد ہلاک اور ایک لاکھ 40 ہزار کے قریب افراد بے گھر ہوگئے تھے جس کے مقابلے میں تازہ واقعات بدترین ہیں۔

میانمار فوج کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ روہنگیا افراد کی جانب سے چھوٹے پیمانے پرحملے کیے جارہے ہیں جس کے بعد میانمار کی فوج کی جانب سے سخت کارروائی کی گئی۔

تاہم بنگلہ دیش کی جانب ہجرت کرنے والے لاکھوں روہنگیا مسلمان اس کے برعکس میانمار کی فوج کے ظلم کی کہانیاں سنارہے ہیں جبکہ مذکورہ علاقوں میں عالمی میڈیا کی پہنچ نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں