اسلام آباد: پولیس نے رئیل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض، ان کے بیٹے علی ریاض اور بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کے خلاف غیر قانونی طور پر زمین حاصل کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سکندر خان نے 21 ستمبر کو مقامی پولیس کو احکامات جاری کیے تھے کہ وفاقی دار الحکومت سے متصل علاقے پھلگراں کی ایک بیوہ اور دیگر رہائشیوں کی درخواست پر کیس دائر کیا جائے۔

بھرا کاہو پولیس نے آئین کے سیکشن 109، 341، 379، 427 اور 447 کی خلاف ورزی پر 29 ستمبر کو ایف آئی آر درج کی۔

اس کیس میں ایک شکایت کنندہ ایڈووکیٹ یاسر علی نے ڈان کو بتایا کہ یہ زمین پھلگراں ریونیو اسٹیٹ سے 8 سے 9 کروڑ روپے کے عوض حاصل کی گئی تھی جس پر اب بحریہ ٹاؤن کا غیر قانونی قبضہ ہے۔

مزید پڑھیں: زرداری کی مدد حاصل کرنے کیلئے نواز شریف کی ملک ریاض سے ملاقات

انہوں نے کہا کہ جب وہ رواں برس 26 جولائی کو اپنی خاندانی زمین کا دورہ کرنے پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ اب اس اراضی پر بحریہ ٹاؤن کا قبضہ ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس معاملے کے لیے انہوں نے مری ایکسپریس وے پر موجود بحریہ ٹاؤن کے آفس سے رابطہ کیا اور انہیں اپنی جائیداد کی ملکیت کے کاغذات دکھائے جس پر بحریہ ٹاؤن انتظامیہ نے کہا کہ یہ معاملہ ان کے ہاتھ میں نہیں۔

ایڈووکیٹ یاسر علی نے بتایا کہ جب وہ اس معاملے کی رپورٹ درج کروانے بھارا کاہو تھانے پہنچے تو اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) اور دیگر پولیس اہلکاروں نے ان کی بات سننے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد انہوں نے ضلعی عدالت کا رخ کیا اور زمین کے غیر قانونی قبضے پر کیس رجسٹرڈ کرنے کے لیے پٹیشن دائر کی۔

درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ پراپرٹی ٹائیکون نے غیر قانونی طریقے سے ان کی خاندانی زمین پر قبضہ کیا اور اسے اپنی نجی ہاؤسنگ اسکیم میں شامل کر لیا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی کا باغ ابنِ قاسم بحریہ ٹاؤن کے حوالے

ملک ریاض کے وکیل مصطفیٰ تنویر نے عدالت کو بتایا کہ اس زمین کی ملکیت کا معاملہ سول کورٹ میں زیر التواء ہے۔

مصطفیٰ تنویر نے الزام لگایا کہ شکایت کنندہ نے ان کے موکل ملک ریاض اور بیٹے علی ریاض کو بلیک میل کرنے کے لیے آیف آئی آر درج کرنے کی پٹیشن دائر کی ہے۔

ملک ریاض کے وکیل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ اس وقت سول کورٹ میں موجود ہے اس لیے ضلعی عدالت میں سماعت کا آغاز نہیں کیا جاسکتا۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے حکم دیا کہ سول کورٹ میں مقدمہ ہونے کے باوجود ضلعی عدالت میں بھی کیس کی سماعت جاری رہ سکتی ہے۔

تاہم جسٹس سکندر خان کا کہنا ہے کہ ملزمان کو ایف آئی آر درج ہونے سے قبل گرفتار کرنا ضروری نہیں تاہم انہوں نے پولیس کو ہدایت جاری کی کہ تفتیش کے دوران ملزمان کو صرف سنگین جرائم ثابت ہونے پر گرفتار کیا جائے۔

مزید پڑھیں: بحریہ انکلیو حادثہ میڈیا پر نہ آنا شرمناک ہے، متاثرہ شخص

حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر تفتیش کے دوران شکایت کنندہ کے الزامات ثابت نہیں ہوتے تو غلط معلومات فراہم کرنے کے الزام میں ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے۔

جب بحریہ ٹاؤن کے ترجمان کرنل ریٹائر محمد خلیل سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ڈان کو بتایا کہ بحریہ ٹاؤن نے اس ہاؤسنگ سوسائٹی کو قانونی طریقے سے خریدا ہے۔

تاہم انہوں نے اس بات کو قبول کیا کہ سوسائٹی اور مقامی افراد کے درمیان اس زمین کو لیکر معمولی تنازع موجود ہے جو اسلام آباد کی سول عدالت میں زیر التواء ہے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ مقامی افراد نے ملک ریاض اور ان کے بیٹے کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے لیے جو پٹیشن دائر کی ہے اس کا مقصد بحریہ ٹاؤن سے جگہ کا بہتر معاوضہ حاصل کرنا ہے۔


یہ خبر یکم اکتوبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں