روسی ایئرفورس دو سال قبل شام کے صدر بشار الاسد اور ان کی فوج کو داعش اور دیگر مسلح جنگجو گروپوں سے بچانے کے لیے دمشق آئی تھی، جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے اور شامی فوج کو تحفظ ملا لیکن اس کی قیمت کے طور پر مقامی فورسز کو 56 ہزار سپاہیوں سے ہاتھ دھونا پڑے، جس کے بعد دمشق میں موجود روسی ہر ایک فرد سے ملاقات میں یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ ’وہ یہاں ایک اور افغانستان نہیں بنانے جارہے‘۔

تاہم گذشتہ ہفتے روس کے لیفٹننٹ جنرل ویلری آساف، جو شامی کمانڈرز کی نگرانی کررہے تھے، کی دیرالروز میں ہلاکت نے مغربی میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی، اس شہر کو 3 سال سے داعش نے گھیرے میں لے رکھا تھا تاہم روسی اعلیٰ فوجی افسر نے شدت پسند تنظیم کا قبضہ ختم کرنے میں شامی فورسز کو مدد فراہم کی تھی۔

روسی فوج کے ایک اعلیٰ افسر کی ہلاکت پر مغرب نواز مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے میڈیا پر منظر عام پر آنے والی رپورٹس میں اس واقعے کی ذمہ داری امریکی حمایت یافتہ کرد ’شامی ڈیموکریٹک فورسز‘ پر عائد کی گئی۔

مزید پڑھیں: شام: روسی سفارت خانے پر مارٹر شیل حملہ

لیکن روس کی وزارت دفاع نے شام میں اپنے ایک اعلیٰ فوجی افسر اور دو روسی کرنلوں کی ہلاکت کے واقعے کو انتہائی سنجیدگی سے لیا، وہ صحیح بھی تھے کیونکہ لیفٹننٹ جنرل ویلری آساف روس کے علاقے اوسورییسک میں روس کی ففتھ آرمی کے کمانڈر تھے۔

اور وہ کیسے ہلاک ہوئے؟ اس حوالے سے روسیوں کا کہنا ہے کہ انہیں دیرالزور میں داعش نے ایک آرٹلری شیل کے ذریعے نشانہ بنایا، جو معمول سے ہٹ کر ایک ٹارگٹڈ کارروائی کی کوشش تھی، اگر ایسا ہے تو داعش نے ممکنہ طور پر ٹارگٹڈ کارروائیوں کا آغاز کردیا ہے، جبکہ اس سے قبل یہ تنظیم دشمن کے نشانوں پر سیکڑوں آرٹلری شیل فائر کیا کرتی تھی۔

اس کے علاوہ یہ سوالات بھی جنم لے رہے ہیں کہ انہیں کیسے معلوم ہوا ہے کہ وہ اس مخصوص فوجی پوزیشن کے دورے پر آرہے تھے؟ اور اگر انہیں معلوم ہو بھی گیا تھا تو انہیں درست نشانہ لگانے کی تربیت کس نے دی؟ یا یہ شکست خوردہ تنظیم کے لیے صرف ایک کامیاب موقع ہی تھا؟

یہ بھی پڑھیں: روسی فوجیوں کی لاشوں کے بدلے شامی قیدیوں کی رہائی

یہ سوالات روسیوں نے شامی فوج کی اعلیٰ قیادت کے سامنے بھی رکھے، جنہوں نے گذشتہ ہفتے امریکی فوج پر براہ راست داعش کے ساتھ شام کے مشرقی علاقوں میں تعاون کا الزام لگایا تھا، متعدد ویب سائٹس، جن میں گلوبل ریسرچ بھی شامل ہے، نے روسی جنرل کی ہلاکت پر سازشی تصور پیش کرتے ہوئے اس واقعے میں امریکی فوج کے بلا واسطہ ملوث ہونے کا الزام لگایا، جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ امریکا ان اقدامات سے شام میں لڑنے والی کرد فورسز کو داعش کے ذریعے رقہ تک رسائی دینا چاہتا ہے۔

ویسے اس قسم کے منصوبوں پر یقین کرنا کچھ مشکل ہے لیکن کچھ ماہ قبل امریکی ایئر فورسز نے دیرالزور میں بمباری کرکے درجنوں شامی فوجیوں کو ہلاک کردیا تھا، اس واقعے کے فوری بعد داعش نے پیش قدمی کرتے ہوئے شہر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا، یہ عجیب لگتا ہے کہ امریکا، جو عراق کے شہر موصل میں داعش کے خلاف جنگ میں عراقی فورسز کی مدد میں مصروف ہے، شام میں داعش کے ان ٹھکانوں پر بمباری نہیں کررہا جہاں انہوں نے ’غلطی‘ سے شامی فوجیوں کو نشانہ بنایا تھا۔

مزید پڑھیں: شام جانے والا روسی فوجی طیارہ تباہ، 92 مسافر سوار تھے

کچھ ہفتوں قبل روس نے غلطی سے کردش یونٹ کو بمباری کا نشانہ بنایا تھا، اس سے ایسا نہیں لگتا کہ روس، شام اور امریکی حمایت یافتہ کرد جنگجو یہ نہیں جانتے کہ وہ یہ سب کیا کررہے ہیں۔


یہ رپورٹ ’دی انڈیپینڈنٹ‘ کے اشتراک سے 9 اکتوبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں