لاہور ہائیکورٹ میں کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں کی نظربندی کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران وفاقی حکومت نے جواب جمع کرانے کے لیے مہلت طلب کرلی۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے مذکورہ درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران وفاقی حکومت کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اٹارنی جنرل پاکستان بیرون ملک گئے ہیں لہذا جواب جمع کروانے کے لیے مہلت دی جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کے ریویو بورڈ میں بھی یہ معاملہ زیر سماعت ہے، جس پر آج سماعت ہوگی۔

اس موقع پر حافظ سعید اور ساتھیوں کے وکیل اے کے ڈوگر ایڈوکیٹ نے سوال کیا کہ کیا وہ پنجاب حکومت کے خلاف کیس میں تاخیری حربے استعمال کرنے پر ہر جانے کا دعوی دائر کر سکتے ہیں؟

مزید پڑھیں: حافظ سعید کی نظر بندی کے احکامات جاری

جس پر عدالت نے کہا کہ بالکل آپ پنجاب حکومت کے خلاف ہر جانے کا دعوی دائر کر سکتے ہیں۔

اے کے ڈوگر ایڈووکیٹ نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ حافظ سعید کو نظر بند کرنے کے حوالے سے حکومت کے پاس کوئی ثبوت نہیں، اس کے باوجود حکومت نے نظر بندی میں 90 روز کی توسیع کردی ہے جو غیر قانونی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے ثبوت کے بغیر محض الزامات کی بنیاد پر امریکا کے کہنے پر حافظ سعید کو نظر بند کیا تھا، کیونکہ امریکا نے پاکستان کی امداد بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔

وکیل درخواست گزار نے استدعا کی کہ حافظ سعید کی نظر بندی آئین اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، لہذا اسے کالعدم قرار دیا جائے۔

جس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت 24 اکتوبر تک کے لیے ملتوی کردی۔

یہ بھی پڑھیں:حافظ سعید کو ایم پی او کے تحت نظربند رکھا جائے گا

یاد رہے کہ صوبائی حکومت نے رواں سال 31 جنوری کو حافظ سعید کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1977 کے سیکشن 11-ای ای ای (1) کے تحت نظر بند کیا تھا۔

تاہم حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں نے ایم پی او کے تحت اپنی نظر بندی کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔

جماعت الدعوۃ کے سربراہ پر بھارت اور امریکا کی جانب سے 2008 میں ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا تھا، جس کے نتیجے میں 6 امریکیوں سمیت 166 افراد ہلاک ہوگئے تھے، لیکن حافظ سعید مسلسل ان الزامات کو مسترد کرتے آئے ہیں۔

حکومت پنجاب نے گزشتہ ماہ بھی حافظ سعید کی نظر بندی کو ختم کرنے کی مخالفت کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں