نئی دہلی: بھارتی حکومت نے اپنے مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں سے بات چیت نہ کرنے کے اپنے تین سالہ پرانے موقف سے پیچھے ہٹتے ہوئے وادی کے حریت پسندوں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نریندر مودی کی حکومت نے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کو حکومت کی جانب سے مذاکرات کے لیے نامزد کردیا۔

مودی سرکار کے اس اقدام سے صاف ظاہر ہے کہ بائیں بازو کی انتہا پسند جماعت بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) نے کشمیر کے لیے اپنی پالیسی کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کے لیے انہوں نے بھارتی خفیہ ایجنسی انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے سابق سربراہ دنیشور شرما کو جموں اور کشمیر کے لیے بات چیت میں شامل کیا ہے تاکہ ’مکمل آزادی‘ کے ساتھ کشمیر کے حریت پسندوں سے مذاکرات کیے جائیں جنہیں نئی دہلی پاکستان کے ایجنٹ کے طور پر دیکھتا ہے۔

نئی دہلی میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے راج ناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ ایسا ہر گز نہیں ہے کہ کشمیر میں ایک گروپ سے بات چیت کی جائے گی اور دوسرے گروپ کو نظر انداز کیا جائے کیونکہ ان مذاکرات کا مقصد جموں اور کشمیر کے تمام لوگوں کی خواہشات کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا ہے۔

مزید پڑھیں: ’بھارت، کشمیر سے توجہ ہٹانے کیلئےتصویر کے پیچھے چھپ رہا ہے‘

خیال رہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی گزشتہ ہفتے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر سہیل محمود سے ملاقات کے بعد سامنے آیا۔

بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق سشما سوراج کی سہیل محمود کے ساتھ ملاقات کے دوران پاکستان کے ساتھ باہمی تعلقات کے امور زیر بحث آئے تھے جبکہ انہوں نے سرحد پار دہشت گردی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسلام آباد سے ممبئی اور پٹھان کوٹ حملے میں ملوث افراد کو جلد از جلد سزا دینے کا بھی مطالبہ کیا۔

اپنی ملاقات کے دوران سشما سوراج نے پاکستانی ہائی کمشنر سے درخواست کی تھی کہ پاکستان سزائے موت کے منتظر بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے معاملے پر اپنے موقف پر نظر ثانی کرے۔

ادھر بھارتی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ دنیشور شرما بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں لوگوں سے روابط قائم کرکے ان کی خواہشات جاننے کی کوشش کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر:بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں مزید 8 افراد ہلاک

واضح رہے کہ مودی سرکار کی جانب سے گزشتہ تین سالوں کے دوران یہ پہلا موقع ہے کہ جب کشمیریوں تک رسائی کی کوشش کی گئی اور وادی میں طویل عرصے سے بھارتی فورسز کی جانب سے جاری ریاستی تشدد اور حریت پسندوں کی جوابی کارروائیوں کو ختم کرنے کے لیے مصالحت آمیز اقدام کیے گئے۔

جموں اور کشمیر کی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے نئی دہلی کے اس اقدام کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ مذاکرات وقت کی ضرورت اور ریاست میں امن قائم کرنے کا واحد راستہ ہے۔

جموں اور کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنا ذہن کھلا رکھنا ہوگا جبکہ مذاکرات کا نتیجہ آنے تک انتظار کرنا ہوگا۔

انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ جو لوگ کشمیر کے لیے صرف طاقت کو امن قائم کرنے کا واحد راستہ قرار دیتے تھے آج نئی دہلی کے اس فیصلے کے بعد ان کی واضح شکست ہوئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں