واشنگٹن: امریکی میڈیا کے مطابق طالبان جنگجوؤں کو نشانہ بنانے کے لیے امریکی سی آئی اے نے افغانستان میں ’ہَنٹ اینڈ کِل‘ یا ’شکار‘ آپریشن کا آغاز کردیا ہے۔

سی آئی اے کے ڈائریکٹر مائیک پومپیو نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر دباؤ ڈالنے سے قبل امریکا جنگ کے میدان میں طالبان کو شکست دینا چاہتا ہے، یاد رہے کہ یہ بات 21 اگست کو امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اعلان کی گئی نئی افغان حکمت عملی کا اہم حصہ بھی ہے۔

گذشتہ ہفتے واشنگٹن میں امریکی تھنک ٹینک کو پومپیو نے بتایا تھا کہ ’صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ واضح کیا تھا کہ افغانستان میں طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے ہمیں جو کچھ کرنا پڑا وہ کریں گے ساتھ ہی طالبان کو اس کی قطعی اُمید نہیں ہونی چاہیے کہ وہ یہ چیز جنگ کے میدان میں چیت سکتے ہیں‘۔

مزید پڑھیں: کینیڈین جوڑے کو 5 سال تک پاکستان میں قید رکھا گیا، سی آئی اے

دی نیو یارک ٹائمز وہ پہلا ادارہ ہے جس نے رپورٹ کیا ہے کہ امریکا کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) انتہائی ماہر افسران اور ٹھیکیداروں پر مشتمل چھوٹی ٹیمیں ملک بھر میں بھیجے گی جس کا مقصد طالبان جنگجوؤں کا شکار کرنا ہے۔

دیگرمیڈیا رپورٹس کے مطابق یہ ٹیمیں افغان فورسز کے ساتھ کام کریں گی تاہم ان کے ساتھ امریکی فوجی موجود نہیں ہوں گے۔

مذکورہ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں جاری 16 سالہ جنگ کو ختم کرنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات میں سی آئی اے کو کردار میں ’لازمی اضافے‘ کا فیصلہ کیا ہے، یہ جنگ امریکا کی اب تک کی سب سے طویل ترین جنگ ہے۔

مذکورہ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ جیسا کہ ایجنسی افغانستان اور پاکستان میں ہونے والے ڈرون حملوں میں ملوث جبکہ جنگ کے میدان میں وہ القاعدہ کے خلاف کوششوں میں مصروف ہے اور افغان انٹیلی جنس سروسز کو مدد فراہم کررہی ہے لیکن اب واشنگٹن نے فیصلہ کیا ہے کہ اسے اب ایک بڑا کردار ادا کرنا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ نے سی آئی اے کے سربراہ کااعلان کردیا

مذکورہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکی فوج بڑے پیمانے پر آپریشن پر توجہ مرکوز کرے گی اور سی آئی اے کا پیراملٹری ڈویژن یہ ’شکار‘ آپریشن کرے گا، جبکہ ایجنسی افغانستان میں موجود داعش کے جنگجوؤں کے خلاف لڑ رہی ہے۔

نیو یارک ٹائمز کے مطابق ’سی آئی اے کے کردار میں اس اضافے سے ایجنسی کے نئے ڈائریکٹر مائیک پومپیو کا عالمی طور پر عسکریت پسندی کے خلاف جارحانہ کردار ظاہر ہوتا ہے‘۔

امریکی اخبار کاکہنا تھا کہ ’ایجنسی افغانستان میں ڈرون حملوں کے اپنے پروگرام میں پہلے ہی توسیع کا ارادہ رکھتی ہے، اس کے علاوہ وہ پاکستان میں بھی کارروائیوں میں ملوث ہے جبکہ شام اور یمن میں بھی کبھی کبھی ڈرون حملے کرتی ہے‘۔

21 اگست کی تقریر کے دوران امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ ’قاتلوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اب انہیں کہیں بھی چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی، جیسا کہ کوئی بھی جگہ امریکا اور اس کے ہتھیاروں کی رسائی سے باہر نہیں‘۔

سی آئی اے کے سربراہ نے نا صرف اپنی حکمت عملی کی حمایت کی بلکہ امریکا کی مدد نہ کرنے پر پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

مزید پڑھیں: 15 سال میں 900امریکی ڈرون حملے

انہوں نے زور دیا کہ ٹرمپ انتظامیہ کو پاکستان سے بڑی اُمیدیں وابستہ نہیں رکھنی چاہیے۔

پومیپو کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف مدد کےحوالے سے پاکستان سے بڑی اُمیدیں کرنا اس معاملے کو انتہائی نچلے درجے پر لے جاتا ہے‘۔

انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ انتہائی حساس علاقے میں پاکستان کی بہت اہمیت ہےاور اس لیے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا‘۔


یہ رپورٹ 24 اکتوبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں