قدیم زمانوں سے ہی طب کو تمام معاشروں میں نوکری کے بجائے فرض قرار دیا جاتا رہا ہے۔ ڈاکٹرز کی بہت عزت کی جاتی ہے اور پاکستان میں تو طبی تعلیم یافتہ افراد کو صرف ڈاکٹر نہیں بلکہ 'ڈاکٹر صاحب' کہا جاتا ہے۔

مگر یہ عزت غیر مشروط نہیں ہے بلکہ معاشرہ اِن سے اتنے ہی مثالی کردار کی توقع کرتا ہے جتنی کہ اِنہیں عزت دی جاتی ہے۔ ڈاکٹروں اور اُن کے مریضوں کے درمیان رشتہ اپنی نوعیت میں برابری کا رشتہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر بیماری کے باعث عاجز ہوچکے اپنے مریضوں سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ یہ تعلق مریضوں کے ڈاکٹروں پر بے حد اعتبار کے ذریعے قائم ہوتا ہے۔

مگر اِس طاقت کا غلط استعمال بھی نہایت آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔ روایتی طور پر طبی شعبہ اپنے ضابطے خود بناتا رہا ہے اور اِس میں ریاست کا عمل دخل کم ہوتا ہے۔

طبی شعبے کی گورننگ باڈیز اور بین الاقوامی تنظیمیں رہنما ضابطہ اخلاق تیار تو کرتی ہیں مگر یہ روزانہ کی بنیادوں پر سامنے آتے اخلاقی اور پیشہ ورانہ خدشات کے حل کے لیے ناکافی ثابت ہوسکتے ہیں۔

حالیہ وقتوں میں طبی پریکٹس اِن ضابطہءِ اخلاق کے لیے کئی چیلنج کھڑی کرتی نظر آتی ہے جو ہیپوکریٹس کے دور سے قائم ہیں۔ ایسا ہی ایک چیلنج ڈیجیٹل دور میں ڈاکٹر اور مریض کے رشتے کے بدلتے خدوخال سے متعلق ہے۔

بلاتعطل رابطوں کی وجہ سے ڈاکٹر اور مریض کا رشتہ اب کلینک تک محدود نہیں رہا بلکہ فون، میسیج اور سوشل میڈیا کے ذریعے مسلسل رابطے کی توقع کی جاتی ہے۔ باہمی رضامندی سے قائم ہونے والے اِس تعلق سے شاید کچھ مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔

اہم بات یہاں 'باہمی رضامندی' ہے۔ مگر فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر کسی سے بغیر پوچھے اُنہیں فرینڈ ریکوئیسٹ بھیجنا مریض کی ذاتی زندگی میں ڈاکٹر کی دخل اندازی قرار پائے گا اور یہ غیر اخلاقی، غیر پیشہ ورانہ اور یہاں تک کہ استحصالی رویہ بھی ہے۔

پڑھیے: کراچی کے ایک سرجن کے ہاتھوں جنسی ہراسگی کا تلخ تجربہ

یہ مریضوں اور ڈاکٹروں کی پیشہ ورانہ فاصلہ رکھنے کی صدیوں پرانی روایت کی وجہ سے ہے، جس میں حقیقی یا ڈیجیٹل دنیا میں مریضوں کے ساتھ گھلنے ملنے کا کوئی تصور نہیں۔ یہاں تک کہ ایک بظاہر بے ضرر فرینڈ ریکوئیسٹ بھی اِس مقدس لکیر کی خلاف ورزی ہے۔

جہاں قدیم زمانوں میں پیشہ ورانہ سرحدیں بنانا اور اِن کی پاسداری کرنا آسان تھا، وہاں آج کے ڈیجیٹل دور میں یہ لکیریں دھندلا گئی ہیں۔ طبی تنظیموں کی جانب سے اِن ابھرتے مسائل کو حل کرنے کی کچھ کوششیں واضح ہیں۔

مثلاً، امیریکن میڈیکل ایسوسی ایشن سوشل میڈیا پر مریضوں سے دوستی سے خبردار کرتے ہوئے کہتی ہے: ’اپنے حالیہ یا سابقہ مریضوں سے آن لائن تعلقات رکھنے سے پرہیز کرنا سمجھداری ہے۔ آن لائن دنیا میں سرحدیں نہایت آسانی سے پار کی جاسکتی ہیں اور سنگین حد تک لاپرواہ رویہ ڈاکٹر کے خلاف انضباطی کارروائی کا سبب بن سکتا ہے۔‘

مگر پاکستان کی طبی تنظیموں اور اداروں کی جانب سے سوشل میڈیا پر رابطوں کے بارے میں کوئی رہنما اصول وضع نہیں کیے گئے ہیں۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کا ضابطہءِ اخلاق اِس پر خاموش ہے، جبکہ ملک میں طب کی اعلیٰ تعلیم کی گورننگ باڈی کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز (سی پی ایس پی) کا معاملہ بھی مختلف نہیں ہے۔

اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ شرمین عبید چنائے کی ٹوئیٹ کے بعد سے بغیر اجازت اپنے مریض کو فرینڈ ریکوئیسٹ بھیج کر خبروں میں موجود ڈاکٹر غیر پیشہ ورانہ رویے کے مرتکب ہوئے، مگر کیا کسی پاکستانی ضابطہءِ اخلاق کی خلاف ورزی ہوئی؟

ہم پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں قومی اور ادارہ جاتی سطح پر ایسے کوئی ضوابطِ اخلاق موجود نہیں جو ڈاکٹروں کے سوشل میڈیا پر رویے کے حوالے سے رہنمائی کریں۔

مگر طبی پیشے کی صدیوں سے قائم شدہ روایات و اصولوں کے پیشِ نظر مذکورہ ڈاکٹر کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ آیا اُن کا یہ رویہ درست ہے یا نہیں۔ مگر یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ اُنہیں کیوں معلوم نہیں تھا۔

مزید پڑھیے: عائشہ گلالئی کے معاملے میں ہمارا رویہ کہاں غلط ہے؟

پاکستان میں آج بھی ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک طالبِ علم میڈیکل کالج سے اپنی تعلیم مکمل کرے، پی ایم ڈی سی کی تمام شرائط کو پورا کرنے کے بعد سی پی ایس پی سے فیلوشپ حاصل کرکے اسپیشلسٹ بھی بن جائے اور اِس دوران طبی اخلاقیات اور پیشہ ورانہ رویے پر ایک بھی سیشن نہ لے۔

یہاں تک کہ اگر ایسے ڈاکٹروں کے اداروں کی اپنے ملازمین کے سوشل میڈیا استعمال کے حوالے سے کوئی پالیسی موجود بھی ہے تو کافی حد تک امکان ہے کہ اُس ادارے کے زیادہ تر لوگوں کو ایسی کسی پالیسی کی موجودگی کا علم نہیں ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر طبی عملہ سوشل میڈیا پر موجود دیگر لوگوں کی طرح اپنی سرحدیں خود بناتا اور اپنے اصول خود وضع کرتا ہے۔

ہماری ایک مشترکہ تحقیق 'فزیشنز ان سائبر اسپیس: فائنڈنگ باؤنڈریز' میں طبی عملے کے سوشل میڈیا کے استعمال سے جنم لینے والے مسائل کے ساتھ ساتھ اُن مشکلات کا ذکر بھی کیا گیا جو کہ فی الوقت زیرِ بحث ہے۔

ہماری تحقیق نے پایا کہ جہاں کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے پانچ طبی اداروں کی 692 طبی شخصیات کے نزدیک سوشل میڈیا پر اپنے مریضوں سے دوستی قابلِ قبول نہیں تھی، وہاں 30 فیصد کو اِس پر کوئی اعتراض بھی نہیں تھا بلکہ اِن کے نزدیک یہ قابلِ قبول تھا، لیکن یہ افراد شعبے میں نچلی سطح پر تھے، بشمول زیرِ تربیت ڈاکٹرز اور طلباء۔

ہماری تحقیق کا ایک اور پریشان کن نتیجہ یہ تھا کہ اکثر ڈاکٹر اپنے سینئرز یا جونیئرز، بشمول طلباء سے سوشل میڈیا پر تعلقات قائم کرنے کو قابلِ قبول سمجھتے ہیں، بھلے ہی اُن کے درمیان طاقت کا عدم توازن موجود ہوتا ہے۔

ہماری تحقیق نے اِس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ اگر ڈاکٹر سوشل میڈیا کا اپنا استعمال بڑھا دیں تو کس طرح مریض کی پوشیدگی خطرے میں پڑسکتی ہے، اور مریض کی خفیہ معلومات کا سوشل میڈیا کے ذریعے پھیل جانا آسان ہوجاتا ہے۔

تحقیق کے نتائج اور گزشتہ ہفتے ہونے والے واقعے سے جنم لینے والی بحث سے یہ واضح ہے کہ طبی اداروں اور گورننگ باڈیز کو پیشہ ورانہ ضوابطِ اخلاق کو فوراً نئے زمانے سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔

جانیے: ہیکنگ اور بلیک میلنگ کے متاثرین کے لیے 7 رہنما نکات

اداروں کو خود بھی اپنی پالیسیوں میں سوشل میڈیا کے استعمال پر روشنی ڈالنی چاہیے، اور اگر اُن کے پاس ایسی پالیسیاں موجود ہیں تو اُن کے اسٹاف کو اِس حوالے سے باقاعدہ تربیت اور آگاہی ہونی چاہیے۔

بائیو میڈیکل اخلاقیات کی تربیت کو مرکزی دھارے میں لاکر ڈگری کے حصول کی اہم شرط کے طور پر شامل کرنا چاہیے کیونکہ اِس وقت یہ تربیت یا تو بالکل دی ہی نہیں جاتی یا ہمارے میڈیکل کالجوں میں ایک ثانوی اہمیت کے مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔

یہ بالکل بھی حیران کن نہیں کہ ایک بظاہر محدود مسئلے نے اتنی بحث کو جنم دیا ہے۔ یہ اِس لیے ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں 'مسیحا' اور مریض کے اِس خفیہ رشتے کی سرحدیں متعین نہ ہونے سے مریضوں اور ڈاکٹروں میں یکساں بے چینی پائی جاتی ہے۔

یہ مضمون ابتدائی طور پر انگلش میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

ANwer Ali Oct 30, 2017 07:11pm
یہ آرٹیکل بھی دو بالکل ہی مختلف چیزوں کو مکس کرنے کی کوشش ہے۔ ڈاکٹر اور مریض کا تعلق بالکل الگ معاملہ ہے۔ جبکہ کسی کو ہراساں کرنا بالکل ہی الگ معاملہ ہے۔ کسی کی ذاتی زندگی، ذاتی فون نمبر، ذاتی ڈائری کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ کسی کا ذاتی گھر، جہاں کسی کو بھی بغیر اجازت گھسنے کی اجازت نہیں۔ سوشل میڈیا ایک عوامی پلیٹ فارم ہے جس کی مثال اسٹیج کی طرح ہے جس پر آنے کس مقصد ہی عوامی رابطہ ہے۔ اگر کوئ بھی کسی کو سوشل میڈیا پر فالو کرے یا فرینڈ ریکویسٹ بھیجے تو یہ سوشل میڈیا کی عوامی روابط قائم کرنے کی روح کے عین مطابق ہے تاوقتیکہ کوئ نازیبا یا ذاتی زندگی سے تعلق رکھنے والا معاملہ نہ ہو کیونکہ سوشل میڈیا آپکو پوری آزادی دیتا ہے کہ آپ کسی کی بھی فرینڈ ریکویسٹ قبول نہ کریں، ڈیلیٹ کریں یا بالکل ہی بلاک کریں۔ مزید یہ کہ اگر آپ کو نئے لوگوں سے فرینڈ ریکویسٹ پسند نہیں تو اس کا بھی آپشن موجود ہے۔
محمد آصف ملک Oct 31, 2017 12:10pm
@ANwer Ali سو فی صد درست کہا آپ نے۔ ک
رفیع رضاہادی Oct 31, 2017 12:34pm
آپ کی رائے سر آنکھوں پر لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معزز اور مصروف پیشہ اس بات کی اجازت کیسے اور کیونکر دے سکتا ہے کہ مریضوں اور امراض کو چھوڑ کر آپ اک غیر اہم اور غیر روایتی سبجیکٹ پر قلم اٹھائیں ۔۔۔ ناچیز نے خود تجربہ اٹھایا ہے SIUT کے حوالے سے ۔۔۔ یقین مانیں لائن اور نمبر آنے میں مریض اپنی موت کی دعا کرنے لگتا ہے ۔۔۔ واسلام