اسلام آباد: وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کو ہدایات جاری کی ہیں کہ ٹیکس ریٹرنز کا طریقہ کار شہریوں اور ٹیکس فائلرز کے لیے آسان بنایا جائے.

وزیر اعظم نے یہ احکامات ٹیکس ریفارمز پر ہونے والی میٹنگ کے دوران جاری کیے۔

وزیر اعظم کے خصوصی مشیر برائے ریوینیو ہارون اختر خان اور مشیر برائے معاشی معاملات مفتاح اسماعیل بھی اجلاس میں موجود تھے، جبکہ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار اجلاس میں غیر حاضر رہے۔

خیال رہے کہ حکومت نے کئی مرتبہ ٹیکس ریٹرنز کے آسان طریقہ کار کا اعلان کر رکھا ہے لیکن اسے آج تک اپنایا نہیں گیا۔

مزید پڑھیں: 'پاکستان 5 ہزار ارب روپے تک ٹیکس وصول کر سکتا ہے'

وزیر اعظم نے ایف بی آر کو ہدایت کی کہ اسٹیک ہولڈرز سے مشورے کے بعد ایف بی آر وسیع پیمانے پر ہونے والے ریفارمز اور نظام کو اپنے ہاتھوں میں لے۔

واضح رہے کہ حکومت نے اس معاملے کے مسائل اور ان کے حل کے لیے ٹیکس ریفارم کمیشن بنایا تھا، جس نے ریفارمز میں لاحق خطرات اور ان سے نمٹنے کے طریقہ کار پر تفصیلی رپورٹ جمع کرائی تھی جو اب بھی منظوری کے لیے منتظر ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے ایف بی آر کو ہدایت کی کہ متعلقہ ادارے، جن میں نادرا، بینکس، صوبائی حکام اور یوٹیلیٹی کی خدمات دینے والے بھی شامل ہیں، سے فوری طور پر رابطہ قائم کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹیکس اہداف کا حصول:’ایف بی آر کو مکمل خود مختاری دے دی‘

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ محصولات کے نظام کو وسیع کرنے کے لیے ہمیں ٹیکس دہندگان اور ٹیکس جمع کرنے والوں کے بیچ بھروسہ قائم کرنا ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ عوام کو قومی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے ہمیں ٹیکس ادا کرنے کے لیے ان کا حوصلہ بڑھانا ہوگا۔

ایف بی آر حکام نے اجلاس میں وزیر اعظم کو وضاحت دیتے ہوئے بتایا کہ ٹیکس ریفارمز کو متعارف کرانے، ٹیکس کو بڑھانے، ٹیکس جمع کرنے کے نظام کو بہتر بنانے اور آڈٹ کے نظام کو بہتر کرنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔

اجلاس کے دوران ریونیو جمع کرنے اور نظام کو صارف دوست بنانے کے لیے مختلف تجاویز بھی زیر بحث آئیں۔

اتفاق رائے کی فضا بحال کرنا

اسلام آباد چیمبر آف کامرس کے صدر شیخ عامر وحید کی سربراہی میں ان کے وفد سے ملاقات کے دوران وزیر اعظم کے خصوصی مشیر برائے ریوینیو ہارون اختر نے بزنس کمیونٹی کو ایف بی آر سے متعلق ان کی شکایات کے حل کی یقین دہانی کرائی۔

بزنس کمیونٹی سے ملاقات کے دوران ان کا کہنا تھا کہ مسائل پر اتفاق رائے اختیار کی جائے اور ان تمام مسائل کے بارے میں حکومت کو تحریری طور پر حکومت کو اطلاع دی جائے۔

مزید پڑھیں: نئے ٹیکس کا مقصد: ’پرتعیش اشیاء کا استعمال محدود کرنا‘

انہوں نے مزید کہا کہ 'ایف بی آر کے حوالے سے کسی بھی قسم کی شکایت کے لیے مجھ سے رابطہ کریں وہ خود ان کو حل کرنے کی کوشش کریں گے'۔

حال ہی میں ریگولیٹری ڈیوٹیز لگائے جانے پر بات کرتے ہوئے ہارون اختر کا کہنا تھا کہ 'حکومت اس حوالے سے بے قاعدگیوں کو ختم کرنے کے لیے کوشش کر رہی ہے'۔

ملاقات میں شیخ عامر وحید نے وزیر اعظم کے خصوصی مشیر کو بتایا کہ چند ٹیکس دہندگان کو مسلسل آڈٹ کے لیے چنے جانے سے بزنس کمیونٹی میں ناراضگی پیدا ہورہی ہے، ایک مرتبہ آڈٹ ہونے کے بعد اگلے آڈٹ کے لیے کم از کم 5 سال کی چھوٹ ملنی چاہیے۔

ہارون اختر نے وفد کو یقین دلایا کہ حکومت اس مسئلے کے حل کے لیے کوشش کر رہی ہے۔

تاجروں کی ریگولیٹری ڈیوٹیز پر تنقید

پاکستان چیمبر آف کامرس کے بزنس مین پینل نے ایف بی آر کے ریگولیٹری ڈیوٹیز کے نفاذ کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بڑی مقدار میں اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی کا نفاذ اسٹیک ہولڈز سے مشورہ کیے بغیر کیا گیا۔

چیئرمین بزنس مین پینل میاں انجم نثار کا کہنا تھا کہ ہم پر تعیش چیزوں کی بر آمدگی کو روکنے کے عمل کو سراہتے ہیں لیکن ریگولیٹری ڈیوٹیز نے خام مال اور صنعت کو درکار دیگر چیزوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا ہے جن کو واپس اپنی جگہ پر لانا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: ایف بی آر کو براہ راست ٹیکس بڑھانے کی منصوبہ بندی کی ہدایت

انہوں نے مزید کہا کہ بزنس کمیونٹی اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ خام مال، صنعتوں میں استعمال ہونے والے کیمیکلز اور دیگر اشیاء جو ہمارے ملک میں پیدا نہیں کی جاتیں ان پر ڈیوٹی کیوں بڑھائی گئی ہے؟

انجم نثار کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کو فوری طور پر ان فیصلوں کو روکنا چاہیے اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کرنا چاہیے تاکہ معاملے پر اتفاق رائے سے عمل کیا جاسکے۔


یہ خبر 3 اکتوبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں