میں معذور ہوں تو کیا ہوا، ووٹ میرا بھی حق ہے

05 نومبر 2017
اگلے عام انتخابات میں اہل معذورین کی بطور ووٹرز شمولیت کو ممکن بنانے کے لیے جامع پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے—تصویر شٹر اسٹاک
اگلے عام انتخابات میں اہل معذورین کی بطور ووٹرز شمولیت کو ممکن بنانے کے لیے جامع پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے—تصویر شٹر اسٹاک

جمہوری نظام میں انتخابات انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، انتخابات کے ذریعے عوام کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ووٹ کے ذریعے اپنی پسندیدہ سیاسی قیادت کو منتخب کریں، جو حکومتی باگ ڈور سنبھال کر مُملکت پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے کام کرے گی۔

انتخابات کی کامیابی صرف اُسی صورت میں ممکن ہے کہ جب پاکستان کے تمام اہل وُوٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں۔ چنانچہ ملک کے ہر باشندے کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ خود بطور ووٹر اپنا اندراج کروائے اور ووٹ کے ذریعے اپنی سیاسی رائے کا اظہار کرے اور ملک میں جمہوری مرحلے کا حصہ بنے۔

2018ء میں ایک بار پھر پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہونے جا رہا ہے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں ووٹ دینے کے اہل معذور افراد کی بطور ووٹرز شمولیت کو ممکن بنانے کے لیے جامع پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے، جس کے لیے سیاسی جماعتوں، پاکستان الیکشن کمیشن، نادرا، معاشرے اور خود معذور افراد کو متحرک اور فعال ہونا پڑے گا۔

پڑھیے: حقوقِ معذورین: اسلام، مغرب اور پاکستان

بدقسمتی سے ابھی تک معاشرے کے معذور طبقے کے درست اعداد و شمار معلوم نہیں ہو سکے ہیں۔ پاکستان میں قدرتی آفات، ٹریفک حادثات، جنیاتی و موروثی بیماریاں، دہشت گردی اور صحت عامہ کی ناقص آگاہی کے سبب معذوری بڑھ رہی ہے۔

1988ء کی مردم شماری کے مطابق 2.4 فیصد، این جی اوز کے مطابق 10 فیصد، جبکہ ڈبلیو ایچ او کے مطابق کُل آبادی کا 15 فیصد حصہ معذورین پر مشتمل ہے۔ لیکن 2017ء کی مردم شماری میں تاحال معذور افراد کی صحیح تعداد ظاہر نہیں کی گئی ہے۔

قیام پاکستان سے لے کر اب تک حکومتِ پاکستان نے معذور افراد کی بحالی کو صرف خصوصی تعلیم، روزگار کا 2 یا 3 فیصد کوٹہ اور معمولی مالی اعانت تک محدود رکھا ہے۔ معذور افراد پر خصوصی افراد کا ایک خوبصورت لیبل لگا دیا جاتا ہے، لیکن اُنہیں عمومی تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ، روزگار، تعمیرات اور ہر طرح کے سیاسی عمل میں شمولیت سے مستثنیٰ رکھا جاتا ہے۔

دورِ حاظر میں ترقی یافتہ ممالک میں منصوبہ بندی اور تعمیر و ترقی کی تمام تر پالیسیوں میں معذورین کی بہبود کو شامل کیا جاتا ہے، نتیجتاً وہ کسمپرسی اور مفلوک الحالی کے بجائے آزادانہ طرزِ زندگی بسر کرتے ہیں اور ملکی ترقی میں حصہ دار بن جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے منشور میں معذور افراد کے شہری حقوق تسلیم کرتے ہوئے اُن کی فلاح و بہبود کے لیے جامع لائحہ عمل کا اعلان کریں۔

انتخابی فہرستوں میں ووٹ کا اندراج کروانے اور ووٹ ڈالنے کے لیے ہر ووٹر کے لیے قومی شناختی کارڈ کی موجودگی لازم ہے۔ معذور افراد کے لیے نادرا خصوصی قومی شناختی کارڈ کا اجراء کرتا ہے، خصوصی شناختی کارڈ کے لیے معذوری کے سرٹیفیکیٹ کی موجودگی لازمی ہے۔

پڑھیے: معذور افراد سہولیات چاہتے ہیں، خیرات نہیں

معذوری کے سرٹیفیکیٹ کا اجراء ضلعی، تحصیلی ہیڈ کوارٹر ہسپتال اور صوبائی یا ضلعی محکمہ سوشل ویلفئیر کرتے ہیں۔ سرٹیفیکیٹ برائے معذوری کے اجراء کے طریقہ کار کو شفاف اور سہل بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ غیر معذور افراد انگلی کٹوا کر شہیدوں میں شامل ہوکر معذوری کا سرٹیفیکٹ حاصل کرلیتے ہیں اور معذور بند کمروں میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

خصوصی قومی شناختی کارڈ پر معذوری کی شناخت یا لوگو کے لیے وہیل چئیر کا نشان کندہ ہے۔ ویسے تو معذوری کی بہت ساری اقسام ہوتی ہیں لیکن پاکستان میں عام طور پر چار اقسام کی معذوریوں پر کام ہو رہا ہے۔ یہ اقسام جسمانی معذوری، ذہنی معذوری، بصارت سے محرومی اور سماعت سے محرومی پر مشتمل ہیں۔ ہر معذور کا لوگو مختلف ہے۔ خصوصی قومی شناختی کارڈ پر معذوری کے مطابق لوگو کنندہ ہونا چاہیے تاکہ معذور شخص کی معذوری شناختی کارڈ دیکھ کر فوراً شناخت ہوجائے۔ دیہی اور پسماندہ علاقوں میں موجود معذور افراد کے خصوصی شناختی کارڈ بنوانے میں نادرا کو قابلِ رسائی موبائل یونٹ مہیا کرنے چاہیے۔

پڑھیے: مجھے ’معذور‘ ہونے کی اتنی بڑی سزا کیوں دی جارہی ہے؟

نادرا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ کو بصارت سے محروم افراد کے لیے بھی قابلِ رسائی بنانے کی ضرورت ہے۔ بینائی سے محروم افراد کے لیے ہدایات آڈیو ریکارڈنگ کی صورت میں ویب سائیٹ پر فراہم کی جانی چاہیے۔ جنرل الیکشن 2018ء میں اہل معذور ووٹرز کی شمولیت کو ممکن بنانے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) کو ہنگامی بنیادوں پر درج ذیل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

  • الیکشن مہم کے دوران الیکشن کمیشن آف پاکستان کی میڈیا مہم اور سیاسی امیدواران کی گھر گھر جاری مہم میں اہل معذور ووٹر کو اپنا ووٹ ڈالنے کی ترغیب دینی چاہیے۔

  • ECP کے عملے کو معذوری سے متعلق آگاہی دینی چاہیے تاکہ وہ معذوری کی تمام اقسام کے لیے پولنگ اسٹیشن اور پولنگ بوتھ کو قابل رسائی بناسکے۔

  • اگر پولنگ اسٹیشن اور پولنگ بوتھ معذور افراد کے لیے قابلِ رسائی ہوں گے تو حاملہ خواتین اور بزرگ افراد بھی باآسانی ووٹ کاسٹ کرسکیں گے۔

  • نابینا افراد اور جسمانی معذور افراد کی پولنگ بُوتھ تک رسائی کے لیے خدمت گار لے کر جانے کی اجازت ہونی چاہیے۔

  • سماعتوں سے محروم افراد کے لیے ہر پولنگ اسٹیشن پر ایک عدد اشاروں کی زبان کا تعبیر گو مقرر ہونا چاہیے۔

کینیڈا، ایسٹونیا، فرانس اور سوئٹزرلینڈ جیسے چند ممالک عام انتخابات کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ یعنی ای ووٹنگ کا جزوی یا کُلی طور کامیابی کے ساتھ تجربہ کرچکے ہیں۔ اِی ووٹنگ میں ووٹ ڈالنے کا عمل اور ووٹوں کی گنتی کا مرحلہ مشینوں کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے۔ ای ووٹنگ کے طریقہ کار کے تحت ووٹر ٹیلی فون، نجی کمپیوٹر کے نیٹ ورک یا انٹرنیٹ کے ذریعے اپنا ووٹ کاسٹ کرتا ہے۔ ووٹنگ کے لیے یہ عمل سستا، شفاف اور سہل ہے۔

اگرچہ پاکستان میں انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی ICT کا رجحان زیادہ نہیں پایا جاتا لیکن مستقبل قریب میں اِی ووٹنگ کے لیے منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے، جس کے ذریعے سرکاری ملازمین، تارکینِ وطن اور بالخصوص معذور اور بزرگ افراد مستفید ہوسکتے ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Laiq Saad Nov 05, 2017 05:01pm
جس ملک میں حکومت خود ملک کے کچھ حصوں کی آبادی دانستہ طور پر کم دکھائے معذرت کے ساتھ وہاں آپ کچھ لاکھ معذوروں کے اعدادوشمار جان کے کیا کرلیں گی