ریاض: سعودی عرب میں تقریباً 100 ارب ڈالر کی خورد برد اور کرپشن کے الزام میں 201 افراد کو تحقیقات کے لیے حراست میں لے لیا گیا۔

سعودی حکومت کی جانب سے کرپشن کے خلاف تاریخ کی سب سے بڑی کارروائی کے تحت گزشتہ ہفتے شہزادوں، وزرا اور ارب پتی تاجروں سمیت درجنوں کو گرفتار اور برطرف کیا گیا تھا۔

سعودی حکومت کی جانب سے یہ کارروائی ایک ایسے وقت میں کی جارہی ہے جب حال ہی میں ہفتے کے روز ایران کے حمایت یافتہ یمنی علیحدگی پسند حوثی باغیوں نے ریاض کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر میزائل فائر کیا تھا، جس کا الزام سعودی حکومت نے ایران پر عائد کیا تاہم ایرانی حکومت نے اس الزام کو مسترد کردیا تھا۔

لبنان کے وزیراعظم سعد حریری نے حال ہی میں سعودی عرب میں اپنا عہدہ چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ایران اور حزب اللہ کے تعلقات ایک بار پھر استوار ہوگئے ہیں اور خدشہ ظاہر کیا کہ ایران اور حزب اللہ انہیں ان کے والد کی طرح قتل کردیں گے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق سعودی وزارت اطلاعات نے اپنے بیان میں کہا کہ ’اب تک 208 افراد کو سوال و جواب کے لیے طلب کیا گیا، جن میں سے 7 کو بغیر کسی الزام کے رہا کردیا گیا۔‘

یہ بھی پڑھیں: گرفتار افراد کے صرف نجی بینک کھاتے منجمد کیے ہیں، سعودی حکومت

سعودی انتظامیہ کی جانب سے کرپشن اور خورد برد کے ملزمان کے بینک اکاؤنٹس منجمد کیے جاچکے ہیں، جبکہ مبینہ کرپشن کیسز سے متعلقہ اثاثے ریاست کی جائیداد کے طور پر قبضے میں لیے جانے کا انتباہ دیا گیا ہے۔

سعودی وزارت اطلاعات کے بیان میں مزید کہا گیا کہ ’بدعنوانی کے حوالے سے اب تک سامنے آنے والا ممکنہ پیمانہ بہت وسیع ہے۔‘

بیان کے مطابق ’گزشتہ تین سال کی تحقیقات کی بنیاد پر ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کئی دہائیوں کے دوران کم از کم 100 ارب ڈالر کا منظم کرپشن اور خورد برد کے ذریعے غلط استعمال کیا گیا۔‘

واضح رہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی ہدایت پر اینٹی کرپشن کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے پہلے مرحلے میں سعودی کھرب پتی شہزادے الولید بن طلال سمیت متعدد شہزادوں، حاضر اور سابق وزرا کو حراست میں لے لیا تھا۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب میں کرپشن کے خلاف مہم کا دائرہ وسیع

81 سالہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان کے بیٹے محمد بن سلمان کو پہلے ہی سلطنت کا اصل حکمراں کے طور پر دیکھا جارہا ہے، جو حکومت کے تمام اہم امور سنبھال رہے ہیں۔

سعودی عرب میں ہونے والی کرپشن کی کارروائیوں کے بعد یہ افواہیں بھی گردش کرنے لگیں کہ یہ گرفتاریاں سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے کی گئیں۔


یہ خبر 10 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں