اسلام آباد: سپریم کورٹ نے متعلقہ قومی اداروں سے لاپتہ افراد کے حوالے سے ان کے جرائم کی تفیصلات طلب کر لیں جبکہ بے گناہ افراد کی رہائی کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے انسانی حقوق کی تنظیم ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ کی درخواست پر لاپتہ افراد کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں حکومتی وکیل ساجد الیاس بھٹی نے عدالت کو بتایا کہ قبائلی علاقوں میں قائم فعال حفاظتی مراکز کی رپورٹ تاحال موصول نہیں ہوئی جبکہ حراستی مراکز کا معاملہ وزارتِ داخلہ اور قبائلی علاقوں کا ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ گزشتہ سماعت پر تاسف ملک کی ان کے اہلِ خانہ سے ملاقات کروانے کا حکم دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی شخص نے جرم کیا ہے تو اسے اس کی سزا ضرور ملنی چاہیے جبکہ اگر حراستی مرکز میں بے گناہ قید ہے تو اسے رہا کیا جائے۔

مزید پڑھیں: 'لاپتہ افراد کمیشن، گمشدگیوں میں ملوث اداروں کو ذمہ دار ٹھہرانے میں ناکام'

سماعت کے دوران ایک لاپتہ شخص کے والد نے عدالت میں بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کے بچوں سے جھوٹ بول بول کر تنگ آ چکے ہیں۔

عدالت نے حراستی مرکز میں قید تاسف ملک کی اہل خانہ سے ایک ہفتے کے اندر میں ملاقات کروانے کا حکم دے دیا۔

آمنہ مسعود جنجوعہ کے وکیل طارق اسد ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب کے علاقے راجن پور سے کچھ لوگوں کو اٹھا کر سیھون شریف کے مقدمے میں پھنسانے کی کوشش کی گئی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس اللہ ڈِنو خواجہ نے مداخلت کرتے ہوئے ایک شخص کو سیھون شریف واقعے میں پھنسانے سے بچایا۔

اس موقع پر عدالت میں ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے بتایا کہ لاپتہ افراد کمیشن تحریری آرڈر لواحقین کو فراہم نہیں کرتا۔

یہ بھی پڑھیں: ’لاپتہ افراد‘ کے اہل خانہ کی غمزدہ کردینے والی کہانیاں

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں صاف صاف بتائیں کہ کس شخص کو کس جرم میں اٹھایا گیا اور ان پر الزامات کیا کیا ہیں تاکہ مجرمان کو قانون کے مطابق کاروائی کر کے سزا دی جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت لاپتہ افراد کے مقدمات کے حل کے لیے ٹھوس حل تلاش کر رہی ہے جبکہ اس حوالے سے گزشتہ سماعت پر بھی لاپتہ افراد کے بارے میں متعلقہ اداروں سے رپورٹ طلب کی تھی۔

عدالت نے لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔

خیال رہے کہ عدالت نے وزارتِ داخلہ کو حراست میں لیے جانے والے تمام افراد اور ان کے جرائم کی تفصیلات کے بارے میں رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔

مزید پڑھیں: لاپتہ افراد کی بازیابی:ملت جعفریہ پاکستان کی ’جیل بھرو’ تحریک کا آغاز

واضح رہے کہ گزشتہ سماعت کے دوران لاپتہ افراد کے لواحقین کی نمائندگی کرنے والی آمنہ جنجوعہ نے عدالت کو لاپتہ افراد کے حوالے سے اپنی رپورٹ پیش کی۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ لاپتہ افراد کے لیے بنی انکوئری کمیشن کو مارچ 2011 سے اب تک 4229 کیسز موصول ہوئے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ کمیشن کی جانب سے 2939 کیسز کو ختم کیا ہے جبکہ آمنہ جنجوعہ نے دعویٰ کیا کہ لوگوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں