واشنگٹن: امریکی کانگریس نے نیشنل ڈیفنس اتھارائزیشن ایکٹ 2018، جس کے مطابق امریکا کے سیکریٹری دفاع نے اس بات کی تصدیق کرنی تھی کہ پاکستان، کالعدم لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف موثر کارروائی عمل میں لارہا ہے، میں سے لشکر طیبہ کے خلاف کارروائی کی شرط کو ختم کردیا۔

پاکستان کو دی جانے والی امداد کی نئی شرائط میں اب صرف حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی شرط سامنے آئی ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ واشنگٹن کی نظریں اس وقت افغانستان کی جانب ہیں۔

امریکا کی جانب سے کالعدم لشکر طیبہ کو دہشت گرد تنظیم سمجھے جانے کے بعد یہ بات بھی سامنے آئی کہ اس تنظیم کا اصل ہدف کشمیر ہے، افغانستان نہیں۔

لشکر طیبہ کو حقانی نیٹ ورک سے جوڑنا یہ تاثر دیتا ہے کہ امریکا پاکستان سے افغانستان جنگ جیتنے میں مدد کے علاوہ اسلام آباد کا کشمیر کے حوالے سے موقف بھی تبدیل کرنا چاہتا ہے۔

مزید پڑھیں: امریکی سینیٹ میں دفاعی بل منظور،پاکستانی امداد مشروط

لشکر طیبہ کو دہشت گرد تنظیم سمجھتے ہوئے واشنگٹن، اسلام آباد سے اب بھی بھارت کے اندر تنظیم کی کارروائیوں کو روکنے کے احکامات دیتا رہے گا لیکن لشکر طیبہ کو حقانی نیٹ ورک سے منسلک نہ کرنا امریکی پالیسی سازوں کا اسلام آباد کو یہ پیغام دیتا ہے کہ حقانی نیٹ ورک سے لڑنا ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔

اس فرق کو پہلے ہی کانگریس کے دستاویزات کانفرنس ورژن آف دی نیشنل ڈیفس ایکٹ 2018 میں نمایاں کیا جا چکا ہے۔

واضح رہے کہ امریکی قانون سازی کی ترتیب میں ہاوس آف ریپریزنٹیٹوز (house of representatives) اور سینیٹ اپنے اپنے بل جمع کراتی ہے جس کے بعد ایک کانفرنس منعقد کی جاتی ہے جہاں ان دونوں بلوں میں سے تنازعات کو ختم کیا جاتا ہے۔

پاکستان کے لیے امریکی کولیشن سپورٹ فنڈ میں سے ملنے والی امداد کے حوالے سے ہونے والی اس کانفرنس میں 70 کروڑ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا گیا تھا، جس میں سے 35 کروڑ ڈالر جاری کرنے سے متعلق سیکریٹری دفاع کی تصدیق کی شرط کے ساتھ منسلک کردیا گیا ہے۔

امریکی سیکریٹری دفاع کی تصدیق میں اس بات کی وضاحت ہوگی کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشنز کر رہا ہے۔

  1. پاکستان اپنے وعدے کے مطابق حقانی نیٹ ورک کو اپنی حدود میں پناہ گاہیں دینے اور چندے جمع کرنے اور تنظیمی سرگرمیوں سے روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کر رہا ہے۔

  2. پاکستان مسلح تنظیم کی سرحدی علاقے میں آمد و رفت کو روکنے اور حقانی نیٹ ورک کے سینئر اور درمیانے درجے کے کارندوں کو حراست میں لینے میں واضح پیش رفت کر رہا ہے۔

کانفرنس کے شرکاء نے سیاسسی و مذہبی آزادی کے حصول کے لیے لڑنے والے گروہوں جن میں بلوچ، سندھی اور ہزارہ کے علاوہ مسیحی، ہندو اور احمدی برادری بھی شامل ہیں کے مبینہ قتل کیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو دی جانے والی امریکی امداد کیلئے کانگریس کی سخت شرائط

شرکاء نے سیکرٹری آف ڈیفنس سے مطالبہ کیا کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ پاکستان امریکا کی جانب سے فراہم کی گئی امداد کو اقلیتی برادری کے خلاف استعمال تو نہیں کر رہی۔

کانفرنس میں پاکستان کو پاک افغان سرحد پر جاری کارروائیوں اور خیبر پختونخوا میں فرنٹیئر کورپس کے اہلکاروں کو ٹریننگ اور آلات فراہم کرنے کے حوالے سے فنڈ کا حق دار ٹھہرایا گیا۔

تاہم شرکاء نے پاکستان کی جانب سے امریکی اہلکار کو ٹریننگ میں مدد فراہم کرنے کے لیے ویزا کے اجراء میں تاخیر کرنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔

صورت حال کو دیکھتے ہوئے شرکاء نے تجویز دی کہ فنڈ کو امریکی ڈپارٹمنٹ آف ڈیفنس کے اہلکار کی جانب سے ٹریننگ اور آلات کی فراہمی میں مدد کرنے کی شرط سے منسلک کردیا جائے۔

ہاوس بل میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کو بین الاقوامی ہیرو تصور کیے جانے اور حکومت پاکستان سے ان کی رہائی کا مطالبہ کرنے کی بات بھی زیر غور آئی۔

شرکاء نے امریکیوں کو ڈاکٹر شکیل آفریدی کی جانب سے اسامہ بن لادن کی تلاش میں مدد فراہم کیے جانے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ شکیل آفریدی کی قید کے حوالے سے فکر مند ہیں اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں جلد سے جلد رہا کیا جائے۔


یہ خبر 14 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں