پانچ سال تک طالبان کی قید میں رہنے والی امریکی خاتون نے دوران قید تشدد اور جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے الزامات لگاتے ہوئے بتایا کہ جنگجوؤں کی جانب سے ان کے چھوٹے بیٹے کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 31 سالہ کیٹلن کولمن نے امریکی نشریاتی ادارے اے بی سی کو انٹرویو کے دوران بتایا کہ 'کسی بھی بچے کے لیے ایسی صورت حال ناقابل برداشت ہوگی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہماری نگرانی پر مامور افراد ہم پر تشدد کرتے تھے اور بعض اوقات ہمارے 4 سالہ بچے کو ڈنڈے سے مارتے تھے'۔

مزید پڑھیں: کینیڈین جوڑے کی پانچ سالہ قید کا ڈرامائی اختتام

انہوں نے انٹرویو میں بتایا کہ 'مجھے کئی مرتبہ مار کر زمین پر پھینک دیا جاتا تھا اور اپنے بچوں اور شوہر کی حفاظت میں ایک مرتبہ میرے گالوں کی ہڈی اور تین انگلیاں بھی ٹوٹ چکی ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے خاندان کو ہمارے سر قلم کیے جانے کا خوف رہتا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'ایسی صورت حال میں لوگوں کو مرنے کا ہی خوف ہوتا ہے اور انہیں بھی پتہ تھا کہ ایسا ہی کچھ ان کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور اسی خوف کو ختم کرنے کے لیے ہم نے ایسا کھیل بنایا تھا'۔

خیال رہے کہ گزشتہ مہینے جب کینیڈین جوڑا طالبان کی قید سے آزاد ہونے کے بعد کینیڈا پہنچا تھا تو جوشوا بوئلے نے اغواکاروں پر ان کے نومولود بچے کے قتل اور ریپ کرنے کا الزام لگایا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ میرے کمرے میں آئے اور میرے شوہر کو گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے اور ہماری نگرانی پر مامور ایک شخص نے مجھے جان سے مارنے کا کہتے ہوئے زمین پر پھینک کر مارنا شروع کردیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ وہاں دو آدمی تھے اور تیسرا دروازے پر تھا، انہوں نے مجھ سے جنسی زیادتی کے بعد میرے کپڑے بھی واپس نہیں لوٹائے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کی حراست میں کینیڈین جوڑے کے ہاں بچوں کی پیدائش

خیال رہے کہ کیٹلن اور ان کے شوہر کو افغانستان سے حقانی نیٹ ورک نے 2012 میں اغواء کیا گیا تھا تاہم کینیڈین جوڑے کے اغوا کیے جانے کی وجوہات اب تک سامنے نہیں آسکیں۔

یاد رہے کہ کیٹلن نے طالبان کی قید میں 3 بچوں کو بھی جنم دیا اور بعد ازاں اس جوڑے کو پاکستانی حکام کی جانب سے آپریشن کے دوران بازیاب کرایا گیا جس کے بعد انہوں نے کینیڈا منتقل ہوکر اپنی زندگی کی دوبارہ شروعات کیں۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 21 نومبر 2017 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں