اسلام آباد: فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے قومی اسمبلی کی قائمہ کیمٹی برائے فنانس کی ذیلی کمیٹی کے سامنے 100 پاکستانیوں کی دبئی میں موجود جائیداد کی فہرست پیش کردی۔

تاہم اس پیش کردہ فہرست میں سرکاری تحقیقاتی ایجنسی اس بات کی تفصیلات معلوم کرنے میں ناکام رہی کہ آیا یہ اثاثے جائز طریقہ کار کو مد نظر رکھتے ہوئے بنائے گئے ہیں یا غیر قانونی ذرائع سے انہیں حاصل کیا گیا ہے۔

ذیلی کمیٹی نے دبئی میں پاکستانیوں کی جانب سے گزشتہ 4 برسوں میں 8 ارب ڈالر کی جائیداد خریدنے کی تفصیلات کے بارے میں سرکاری اداروں کی ناکامی پر بحث کی۔

ذیلی کمیٹی کا اجلاس ڈاکٹر شزرا منصب علی کی سربراہی میں ہوا جبکہ کمیٹی کے دیگر ارکان میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اسد عمر اور مسلم لیگ (ن) کے قیصر احمد شیخ موجود تھے جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اسفندیار ایم بندھارا اجلاس میں شریک نہیں ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: پاکستانیوں کی دبئی میں 85 ارب روپے مالیت کی پراپرٹی

ارکان کی جانب سے کمیٹی کو پہلے ہی آگاہ کردیا گیا تھا کہ ایف آئی اے، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) یا اسٹیٹ بینک کوئی بھی بااختیار نہیں جو بیرون ملک میں پاکستانیوں کی سرمایہ کاری کی تفصیلات دے سکیں۔

ارکان نے کہا تھا کہ قومی احتساب بیورو( نیب) فوکل ایجنسی ہے جو بیرون ملک منی لانڈرنگ یا بدعنوانی کے مقدمات کی تحقیقات کرسکتی ہے تاہم اجلاس میں نیب حکام پیش نہیں ہوئے۔

ایف آئی اے کے ڈائریکٹر ظہیر احمد کی سربراہی میں ٹیم نے 100 افراد کی فہرست پیش کی اور واضح کیا کہ یہ فہرست ایف آئی اے کراچی آفس کی جانب سے کی گئی تفتیش کا حصہ ہے۔

فہرست پیش کرتے ہوئے ایف آئی اے ڈائریکٹر نے کہا کہ ابھی اس بات کا تعین نہیں کیا گیا کہ جائیداد کے مالکان پاکستانی شہری ہیں یا نہیں۔

ذیلی کمیٹی کو پہلے ہی سے آگاہ کردیا گیا تھا کہ نہ ہی اسٹیٹ بینک اور نہ ہی اقتصادی تعاون کی کمیٹی (ای سی سی) نے کسی کو اجازت دی ہے کہ وہ بیرون ملک پراپرٹی میں سرمایہ کاری کرے۔

کمیٹی نے پاکستانیوں کی جانب سے بیرون ملک میں اتنی بڑی سرمایہ کاری کا پتہ لگانے سے متعلق غیر مععولی حکومتی رویے پر تحفظات کا اظہار کیا۔

ایف بی آر کے چیئرمین طارق پاشا نے کہا کہ پاکستان کا متحدہ عرب امارات کے ساتھ دوہرا ٹیکسیشن کا معاہدہ ہے لیکن گزشتہ کئی سالوں میں ایف بی آر کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کا ان لوگوں نے جواب نہیں دیا تھا۔

اسد عمر نے اعتراض اٹھایا کہ متحدہ عرب امارات نے نواز شریف کے خلاف پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کےلے پوچھے گئے سوالات کا جواب دیا تھا اگر وہ اس وقت کے موجودہ وزیر اعظم کے خلاف جواب دے سکتے تو ایک عام پاکستانی کی تفصیلات کے بارے میں کیوں سوالوں کا جواب نہیں دیں گے؟

یہ بھی پڑھیں: دبئی پراپرٹی مارکیٹ میں مندی، پاکستان کی چاندی

ذیلی کمیٹی کے اراکین کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ انسداد بد عنوانی قانون میں کچھ خامیاں ہیں جس میں اصلاحات کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں ایف آئی اے کے لیے 1972 کا غیر ملکی اثاثوں کے ایکٹ مقرر کیا گیا تھا۔

ذیلی کمیٹی کی جانب سے یہ رپورٹ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سامنے اس تجویز کے ساتھ پیش کیے جانے کا امکان ہے کہ اس معاملے میں نیب کا تعاون حاصل کیا جائے۔

بعد ازاں قائمہ کمیٹی برائے فنانس کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس قیصر احمد شیخ کی سربراہی میں منعقد ہوا، جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پاکستانیوں کی غیر ملکی جائیدادوں کی ملکیت کا معاملہ نیب کو نہیں بھیجا جائے گا۔

کمیٹی کی رکن ڈاکٹر نفیسہ شاہ سمیت دیگر اراکین نے مطالبہ کیا کہ اس بات کا فیصلہ قائمہ کمیٹی کی جانب سے ذیلی کمیٹی کی رپورٹ پر بحث کرنے کے بعد کیا جائے۔


یہ خبر 24 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں