اسلام آباد: وفاقی حکومت 515 ارب روپے کا نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ آئندہ سال فروری میں شروع کرے گی جبکہ واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) اس منصوبے کی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔

باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس منصوبے پر عمل کرانے والی ایجنسی واپڈا نے ٹیرف کی ترتیب کے لیے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کو اب تک درخواست نہیں دی ہے۔

یہ ایک ایسا عمل جس کو مکمل ہونے میں کم سے کم ایک ماہ لگ سکتا ہے اس کے لیے ابھی تک یہ طے ہی نہیں کیا جاسکا کہ آیا واپڈا ایک اتھارٹی کے تحت مختلف منصوبوں کی ذیلی تنظیموں یا نیلم جہلم پاور پروجیکٹ کمپنی (این جے سی) کے ٹیرف کے لیے درخواست دینی چاہیے.

اس کے علاوہ واپڈا اور این جے سی کے درمیان توانائی کی خریداری کے معاہدے کے حوالے سے سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی سے معاہدے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی.

مزید پڑھیں: نیلم جہلم کے سبز باغ

واپڈا یا این جے سی کے ٹیرف کی جانب سے ٹیرف کے لیے ایک الگ ریگولیٹری عمل شامل ہوتا لیکن منصوبے کے لیے نیپرا کے ٹیرف کی منظوری بنیادی ضرورت ہے تاکہ گرڈ کو یونٹس بھیجے جاسکیں۔

پی پی اے کی غیر موجودگی میں نیپرا درخواست نہیں دے سکتا اور ایسی صورتحال میں اگر واپڈا ایس پی وی کی جانب سے ٹیرف کی درخواست کرتا ہے تو این جے سی کو بھی پیداواری لائننس کی ضرورت ہوگی جس کے لیے تین سے چار ماہ لگ سکتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جس منصوبے پر عمل کے لیے تقریباً 15 برس لگے ہیں اس کے تین اہم شراکت داروں کےماضی اور مستقبل کے انتظامات اور ذمہ داریاں پوری کرنے کے درمیان ایک رسمی معاہدے کا فقدان ہے.

تکنیکی طور پر بات کی جائے تو واپڈا انتظامیہ، منصوبے کے چینی ٹھیکیدار اور نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ دسپیچ کمپنی ( این ٹی ڈی سی) 525 کے وی ٹرانسمیشن لائنوں اور 525 کے وی توانائی سوئچ کی تنصیب، تیسری پارٹی کی جانچ کی توثیق جبکہ آمدنی کی پیمائش کی ترغیب کی تکمیل جیسے مراحل سے کہیں دور ہے۔

واضح رہے کہ 14 نومبر کو اجلاس میں سی ایم ای سی کے چینی ٹھیکیدار، واپڈا، این جے سی اور این ٹی ڈی سی نے مختلف پارٹیوں کے ذمے 6 نامکمل کاموں پر تبادلہ خیال کیا تھا.

باخبر ذرائع کا کہنا تھا کہ 525 کے سوئچ یارڈ کے کام کرنے کے درکار پلانٹ کا پہلا یونٹ ابھی تیار نہیں ہے۔

سوئچ یار بجلی کا حصول پیداواری یونٹ سے کررہی ہے اور اسے نیشنل گرڈ میں بھیج رہی ہے لیکن ایسا کرنے کے لیے انتظامیہ کو تیسرے فریق کے سرٹیفکیشن کو محفوظ کرنا ہوگا تاکہ اس بات کی تصدیق کی جاسکے کے سوئچ یارڈ اور ٹرانسمیشن لائن درست طور پر مطابقت پذیر اور محفوظ ہیں اور ملک بھرمیں گرڈ کرنے سے یہ نقصان دہ نہیں ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: 'نیلم-جہلم پروجیکٹ اگلے سال کام شروع کرے گا'

14 نومبر کے اجلاس میں شریک ایک اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ ایک سال تک واپڈا کی قیادت کرنے والے چیئرمین اس بات کو جان کر حیران ہوئے تھے کہ سوئچ گارڈ کے لیے تیسرے فریق کی توثیق لازمی تھی.

سوئچ یارڈ کی تکمیل کے لیے مزید دو سے تین ماہ جبکہ اس کی جانچ اور تیسرے فریق کی سرٹیفکیشن کے لیے مزید 2 سے تین ماہ درکار ہیں۔

اجلاس میں اس بات کا ذکر بھی کیا گیا کہ این ٹی ڈی سی تین ٹرانسمیشن لائنوں پر کام کر رہی ہے جسے 15 دسمبر تک مکمل کرنے کا وعدہ کیا گیا، اجلاس میں پی پی اے کی غیر موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

خیال رہے کہ واپڈا نے وفاقی حکومت سے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ پلانٹ کے پہلے یونٹ سے 245.5 میگا واٹ آئندہ سال فروری تک آپریشنل کردے گا۔


یہ خبر 27 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں