ہمارے درمیان کچھ بہت ہی عجیب و غریب اور بے ڈھنگے سے کردار بھی بستے ہیں جو اپنی اوٹ پٹانگ حرکتوں اور مضحکہ خیز عادات کی وجہ سے ہماری توجہ اور دلچسپی کا محور بن جاتے ہیں۔ ایک ایسا ہی تاریخی کردار انٹرنیٹ پر گھومنے پھرنے کے دوران میرے سامنے آیا جسے میں آپ سے ملوانے لے آیا ہوں۔

اس کا نام ٹموتھی ڈیکسٹر تھا، وہ 50 سال کا تھا جب اس کی ایک تصنیف منظرِ عام پر آئی۔ یہ 1802ء کی بات ہے، کتاب دراصل مصنف کی زندگی کے حالات اور مختلف واقعات پر مشتمل تھی۔ اس تصنیف کو ایک قسم کا روزنامچہ کہا جاسکتا ہے۔ ٹموتھی نے اس کتاب میں اپنی ذات اور روز و شب کا احوال بیان کرتے ہوئے مختلف شخصیات کا تذکرہ کیا تھا۔ اُنہوں نے اپنی رفیقِ حیات، دوستوں، ملاقاتیوں اور دیگر لوگوں سے اپنے تعلقات اور شکایات کے ساتھ مخالفین اور اپنے حاسدین کا ذکر اور ان کے بارے میں کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔

کتاب کا عنوان اے پکل فار دی نوئنگ ونز (A Pickle for the Knowing Ones) تھا جو ایسی مقبول ہوئی کہ ناشر کو آٹھ ایڈیشن شایع کرنا پڑے۔ ممکن ہے اس سے قبل ایسی کوئی تصنیف امریکا میں قارئین کی نظر سے نہ گزری ہو اور اسی لیے مذکورہ کتاب کو قارئین نے بہت اہمیت دی ہو، مگر اس کی مقبولیت کی اصل وجہ کچھ اور تھی۔ ایک تو کتاب اپنے موضوع اور متن کے اعتبار سے عجوبہ تھی اور دوسری وجہ اس کا مصنف تھا جو خود بھی عجیب و غریب عادات کا مالک تھا۔ ٹموتھی ڈیکسٹر کا شمار اس وقت امریکا کے کامیاب تاجر اور کاروباری شخصیات میں ہوتا تھا۔ یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ٹموتھی نہ تو پڑھا لکھا تھا اور نہ ہی علم و ادب کا شائق۔ تاریخ کے صفحات میں اسے ایک خود پسند اور بے ڈھنگا انسان بتایا گیا ہے۔

کتاب کے صفحات اور اشاعت کا معاملہ بھی آپ کی دلچسپی کا باعث بنے گا، لیکن اس سے پہلے ٹموتھی کے حالات اور طرزِ زندگی پر ایک نظر ڈال لیں جو خاصی پُراسرار اور مضحکہ خیز بھی ہے۔ ٹموتھی ایک من موجی اور ستائش پسند شخص تھا۔ کسی طرح غربت سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب ہوا تو اپنے نام کے آگے ’لارڈ‘ کا اضافہ کرلیا۔ محل نما گھر میں رہنے لگا، کئی ملازم رکھ لیے اور ان کو ہدایت کردی کہ اب اسے لارڈ ٹموتھی کہہ کر مخاطب کریں۔ پھر اِسے ادیب بننے کی سوجھی اور یہ کام بھی کر گزرا۔

ٹموتھی ڈیکسٹر نے 1748ء کو امریکا کے شہر میساچوسٹس میں آنکھ کھولی۔ والدین نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور زراعت ان کا پیشہ تھا۔ ٹموتھی نے آٹھ سال کی عمر میں اسکول جانا ترک کردیا اور کھیت میں مختلف کام کرنے لگا، مگر جلد اکتا گیا۔ کسی کے کہنے سننے پر چمڑے کے ملبوسات بنانے کا ہنر سیکھنے بیٹھ گیا۔ ان دنوں وہ سولہ برس کا تھا۔ اسی زمانے میں ٹموتھی کی ملاقات الزبتھ نامی ایک مالدار اور صاحبِ ثروت خاتون سے ہوئی۔ وہ بیوہ عورت تھی۔ اس نے ٹموتھی سے شادی کرلی۔

اب وہ الزبتھ کے ساتھ اسی کے محل نما گھر میں رہنے لگا۔ اسی دوران ٹموتھی نے ایک کاروبار شروع کر دیا۔ کام اچھا چلنے لگا تھا، لیکن وہ ایک احمق شخص تھا۔ اس نے احباب کے مشوروں پر سوچے سمجھے بغیر عمل کیا اور کاروبار میں خسارہ ہوا، لیکن شاید اس کی قسمت اچھی تھی۔ اسی زمانے میں امریکا انقلاب اور جنگ کے عفریت کا سامنا کررہا تھا۔

ابتر حالات کی وجہ سے کرنسی کی قدر گھٹ گئی گئی۔ سرکار نے ایک نئی کرنسی متعارف کروائی تو جانے کیا سوچ کر ٹموتھی نے کرنسی حاصل کر کے محفوظ کر لی۔ اس وقت تو وہ پیپر کرنسی کسی کام کی نہ تھی، مگر جیسے ہی حالات بہتر ہوئے تو حکومت کی جانب سے معاشی اصلاحات اور سرمایہ کاری کی طرف توجہ دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس موقعے پر پیپر کرنسی کی اس شکل کو ٹموتھی نے ڈالر سے تبدیل کروا لیا۔ یوں اسے زبردست فائدہ ہوا اور اس کی کاروبار میں ترقی اور خوشحالی کا آغاز ہو گیا۔

ٹموتھی نے کسی طرح دو بحری جہاز تیار کروائے اور ان کے ذریعے بیرونِ ملک تجارت شروع کردی۔ وہ اونی ملبوسات یورپ اور ویسٹ انڈیز کے لیے روانہ کررہا تھا جس پر زبردست منافع حاصل ہونے لگا اور اس کا کاروبار خوب چمکا۔ ٹموتھی کی دولت میں اضافہ ہوتا چلا گیا، لیکن وہ اپنے مزاج اور عادات کے بھونڈے اور بے ڈھنگے پن سے نجات حاصل نہیں کرسکا۔

شہرت اور دولت کا ایک نشہ تھا جو اس کے رگ و پے میں سما گیا تھا۔ ایک دن اسے اپنی حیثیت اور خود سے لوگوں کی جذباتی وابستگی کو آزمانے کی سوجھی۔ دراصل وہ اپنی موت سے متعلق لوگوں کا ردعمل دیکھنا چاہتا تھا۔ اس نے بیوی اور بچوں کو اعتماد میں لیا اور اپنے مرنے کا ڈھونگ رچایا۔ سب کو اطلاع کی گئی کہ لارڈ ٹموتھی اس جہانِ فانی سے رخصت ہو چکے ہیں اور فلاں تاریخ کو تدفین کی جائے گی۔ کہتے ہیں اس کے جعلی جنازے میں تین ہزار افراد شریک ہوئے جن پر بعد میں کھلا کہ یہ سب تو ڈراما تھا۔

اب بات کرتے ہیں اس کی واحد تصنیف کی جس کا تذکرہ ہم اوپر کرچکے ہیں۔ یہ کتاب کیا تھی، ادب کے ساتھ گویا ایک مذاق تھا۔ موضوع تو ایک طرف، کتاب کا طرزِ تحریر اور اشاعت ہی نہایت بھونڈی تھی۔ ناشر کا کہنا تھا کہ وہ لارڈ کی ہدایات کا پابند تھا اور جیسا حکم ملا ویسے ہی کتاب کی طباعت کا کام نمٹا دیا۔ تذکروں میں لکھا ہے کہ ٹموتھی کی کتاب کا مسودہ 8 ہزار 847 الفاظ اور 33 ہزار 864 حروف پر مشتمل تھا جس میں کہیں رموز و اوقاف (punctuation) نہیں برتے گئے تھے۔

اِسی طرح جہاں دل چاہا انگریزی لفظ کا پہلا حرف، جَلی (capital) کردیا۔ ناشر نے جب دوسرا نسخہ چھاپنے سے قبل اس طرف توجہ دینے کو کہا اور اغلاط کی درستی پر اصرار کیا تو 'مصنف' نے اسے ایک صفحہ تھما دیا جس کی 13 سطور پر تمام رموز و اوقاف درج کیے گئے تھے اور ساتھ ہی یہ ہدایت موجود تھی کہ قاری، دورانِ مطالعہ مذکورہ علامتوں کو اپنی ضرورت اور خواہش کے مطابق برت سکتا ہے۔

یہ ایک عجیب و غریب کتاب تھی، کم از کم اپنی طباعت کے اعتبار سے تو بہت بھونڈی اور فضول، مگر حیرت انگیز طور پر اسے بہت مقبولیت ملی۔ اس کے احمقانہ طرزِ عمل اور مضحکہ خیز انداز کے علاوہ اس تصنیف کا تذکرہ اس وقت کی اشرافیہ میں بھی عام ہوا۔ 1806ء میں حقیقت میں لارڈ ٹموتھی نے ہمیشہ کے لیے زندگی سے ناتا توڑ لیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Abbas D Dec 04, 2017 04:33am
Waste of time reading this article.