اسلامی تعاون تنظیم (اوآئی سی) نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دارالخلافہ قرار دینے کے متنازع فیصلے کی صورت میں رکن ممالک کی جانب سے تعلقات منقطع کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے ہنگامی طور پر اجلاس طلب کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

غیرملکی خبررساں ادارے اے پی کی رپورٹ کے مطابق او آئی سی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی ریاست اپنے سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کرے اور بیت المقدس )یروشلم) کو اسرائیل کا دارالخلافہ قرار دینے کی صورت میں اس کے 57 رکن ریاستوں کو اس ملک سے تعلقات منقطع کردینا چاہیے۔

خیال رہے اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں بیت المقدس کے مشرقی حصے میں قبضہ کرکے اس کو اپنا دارالخلافہ قرار دیا تھا لیکن عالمی برادری اس کو قبول نہیں کرتی جبکہ فلسطینیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ ان کا ریاستی دارالخلافہ ہے۔

قبل ازیں امریکی عہدیداروں کی جانب سے بیان سامنے آیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ممکنہ طور پر رواں ہفتے بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دارالخلافہ قرار دیتے ہوئے انتخابی مہم کے دوران بیت المقدس میں امریکی سفارت خانہ قائم کرنے کا کیا گیا وعدہ پورا کرنے کا اعلان کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:'بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ قرار دینا ناقابل قبول ہے'

یاد رہے کہ امریکی صدر نے گزشتہ برس اپنی انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ صدر منتخب ہوئے تو بیت المقدس میں امریکا کا سفارت خانہ قائم کرلوں گا۔

امریکی عہدیداروں کی جانب سے اس بیان کے بعد امریکا کو فلسطین سمیت عرب اور مسلم دنیا کی جانب سے شدید ردعمل کا سامنا ہے اور اسی سلسلے میں او آئی سی کی جانب سے بھی 57 رکنی تنظیم کا اجلاس طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

او آئی سی نے امریکا کے ممکنہ فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فیصلے کے اعلان کی صورت میں سعودی عرب کے ساحلی شہر جدہ میں ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ 'اگر امریکا بیت المقدس (یروشلم) کو متنازع طور پر اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس اجلاس کے بعد فوری طور پر وزرا خارجہ سطح کا ایک اور اجلاس کی تجویز دی جائے گی'۔

او آئی سی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا کی جانب سے بیت المقدس کے حوالے سے ایسے کسی بھی فیصلے کو 'عرب اور مسلم اقوام پر حملہ' تصور کیا جائے گا۔

دنیا بھر کے ممالک کے سفارت خانے تل ابیب میں واقع ہیں کیونکہ امریکا سمیت تمام عالمی طاقتیں بیت المقدس کو متنازع علاقہ سمجھتی ہیں۔

خیال رہے کہ اس سے قبل فلطسین کی غزہ پٹی کی حکمران جماعت حماس اور صدر محمود عباس دونوں کی جانب سے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سنگین نتائج کا اشارہ دیا تھا۔

حماس کی جانب سے عندیہ دیا گیا تھا کہ اگر ایسا فیصلہ سامنے آیا تو انتفاضہ کی تحریک کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:بیت المقدس سے متعلق اسرائیل کے خلاف قرار داد پر ووٹنگ

حماس نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہم اس طرح کے اقدام کے حوالے سے خبردار کرتے ہیں کہ اگر بیت المقدس سے متعلق کوئی ظالمانہ فیصلہ اپنایا گیا تو فلسطینی عوام سے انتفاضہ بحال کرنے کا مطالبہ کریں گے۔

بعد ازاں صدرمحمود عباس نے اپنے بیان میں اس فیصلے کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دارالخلافے کے طور پر قبول کرنا یا بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے کے حوالے سے کوئی قدم سے 'خطے میں امن کے مستقبل کے لیے خطرات بڑھیں گی اور یہ ناقابل قبول ہے'۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ’یروشلم‘ یا بیت المقدس میں اسرائیل کی جانب سے کسی بھی قسم کی کارروائی یا دباؤ اور طاقت کے استعمال کو غیر قانونی قرار دینے اور اس سے گریز کرنے کے حوالے سے اسرائیل مخالف قرار داد پیش کی گئی تھی۔

یہ قرار داد ان رپورٹس کے بعد ہی پیش کی گئی تھی کہ ٹرمپ انتظامیہ اپنے سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کرنے پر غور کر رہی ہے۔

اس قرار داد کے حق میں سب سے زیادہ 151 ریاستوں نے ووٹ دیا جبکہ 6 ریاستوں امریکا، کینیڈا، مائیکرونیزیا کی وفاقی ریاستوں، اسرائیل، جزائر مارشل، ناورو نے قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔

اس کے علاوہ 9 ریاستوں آسٹریلیا، کیمرون، وسطی جمہوری افریقہ، ہونڈراس، پاناما، پاپوا نیو گنی، پیراگوائے، جنوبی سوڈان اور ٹوگو نے قرارداد پر ووٹ دینے سے گریز کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں