اَن دیکھے رشتوں، محبتوں اور پیار کے امین یہ ’خوبصورت میلے‘

اَن دیکھے رشتوں، محبتوں اور پیار کے امین یہ ’خوبصورت میلے‘

ابوبکر شیخ

انسان کی سرشت میں ہے کہ وہ تنہا نہیں رہ سکتا، ایسا کیوں ہے؟ مجھے نہیں پتہ۔ انسان کو تنہائی اور ویرانی کا عالم تھوڑے وقت کے لیے تو ضرور اچھا لگ سکتا ہے لیکن ایک حد کے بعد تہنائی اور ویرانی کا احساس اکتاہٹ پیدا کردیتا ہے جو ناقابلِ برداشت ہوتی ہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ انسان نے اِسی تنہائی کے عذاب سے بچنے کے لیے کئی راستے ڈھونڈے۔ اِس جُستجو میں انسان نے مذہبی تہوار منانے اور میلے سجانے کی خوبصورت اور دل لبھانے والی روایتوں کی بنیاد ڈالی۔ آج تک سجنے والے میلے حقیقتاً صدیوں سے انسانی جُستجو کا صلہ ہیں۔

میلوں کی جہاں اپنی ایک الگ تاریخ ہے وہیں اِن میلوں کا اپنا مخصوص سحر بھی ہے۔ دنیا سمیت جنوبی ایشیاء کے دیہاتوں، قصبوں اور چھوٹے شہروں میں صدیوں سے میلے تفریح فراہم کرتے چلے آرہے ہیں۔ سندھ میں درگاہوں اور آستانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، اور اِن درگاہوں اور آستانوں پر سجنے والے میلوں ملاکھڑوں سے دیہات اور چھوٹے شہروں کے لوگ کافی لطف اٹھاتے ہیں۔ کچھ لوگ تو میلوں کے سحر میں ایسے جکڑے ہیں کہ میلے کا سُن کر اُن کے چہرے پر ایک شگفتگی سی تیر جاتی ہے۔

میلہ لگنے والا ہے رونقیں لوٹنے والی ہیں—تصویر ابوبکر شیخ
میلہ لگنے والا ہے رونقیں لوٹنے والی ہیں—تصویر ابوبکر شیخ

میلے میں مٹھائی تیار کی جا رہی ہے—تصویر ابوبکر شیخ
میلے میں مٹھائی تیار کی جا رہی ہے—تصویر ابوبکر شیخ

میلے میں مٹھائی کی دکان —تصویر ابوبکر شیخ
میلے میں مٹھائی کی دکان —تصویر ابوبکر شیخ

میلہ کسی کی روزی تو کسی کی تفریح کا باعث بنتا ہے—تصویر ابوبکر شیخ
میلہ کسی کی روزی تو کسی کی تفریح کا باعث بنتا ہے—تصویر ابوبکر شیخ

یہ میلے دراصل اُن دنوں کی نشانی ہے جب انسان معاشرے کی بنیادیں رکھ رہا تھا۔ ابنِ آدم نے محسوس کیا کہ اکٹھے مل کر بیٹھنے سے معاشرے اور ماحول کو بہتر بنانے کی نئی راہیں تلاش کی جاسکتی ہیں۔ اِن اجتماعات کے انعقاد سے جہاں انسان کو اپنے اندر کی تخلیقات کو دیگر کے سامنے پیش کرنے کا موقع ملے گا وہاں اُس فن کے قدردان بدلے میں اُنہیں کچھ نہ کچھ ضرور دیں گے۔ حوصلہ افزائی کے دو بول اور تالیاں ہی سہی، ایک سچے تخلیق کار کے لیے اتنا ہی بہت ہے۔

’رگوید‘ میں میلوں کے مُتعلق کچھ اِس طرح ذکر کیا گیا ہے،

’قدیم لوگ میلے، محفلیں اور جلسے کرتے تھے جن میں مرد اور عورتیں تفریح حاصل کرنے کے لیے اکٹھے ہوتے تھے۔ کچھ اپنے ہُنر تو کچھ پیسے کمانے کے لیے آیا کرتے تھے۔ شاعر اپنی شاعری سُنانے کے لیے آتے، کچھ تیر اندازی میں انعام جیتنے کے لیے تیر کمان لے کر آتے تو کچھ گھوڑوں کی دوڑ پر شرطیں لگانے آتے۔ ایسے میلوں اور جلسوں کو چلتے ہوئے ساری رات گزر جاتی اور صبح ہوجاتی۔‘

رگوید کے یہ اشلوک ہمیں میلوں کی ابتدائی تصویر دکھاتے ہیں۔ اگر اِس تصویر کا بغور جائزہ لیا جائے تو دو اہم چیزیں دکھائی دیتی ہیں، ایک ’مذہب‘ اور دوسری ‘اقتصادیات‘۔ یہی دو بنیادی محرکات ہیں جن کے اثرات ہمیشہ دوسری طاقتوں پر حاوی رہے ہیں۔ اِنہی محرکات کی بنیاد پر میلوں کی وسعت اور رنگینی میں وقت کے ساتھ اضافہ ہونے لگا۔ آگے چل کر میلے مذہبی تہوار سے نکل کر بیوپار کا مرکز تو بنے، ساتھ ساتھ اِن کے ذریعے لوگوں کے میل جول بڑھنے اور میلوں میں حاصل ہونے والی تفریح کی فراوانی کے باعث ذہنی تناؤ سے بھی نجات ملتی اور ساتھ ہی میلوں میں بہت کچھ دیکھنے اور سوچنے کو ملتا، اِس طرح میلے جس علاقے میں لگتے، بس وہاں کی ثقافت کا ایک اہم جُز بن جاتے۔

ملاکھڑے میں دو پہلوان مختلف داؤ آزماتے ہوئے ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں—تصویر ابوبکر شیخ
ملاکھڑے میں دو پہلوان مختلف داؤ آزماتے ہوئے ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں—تصویر ابوبکر شیخ

ملاکھڑا سندھ کے میلوں کا اہم جز ہے—تصویر ابوبکر شیخ
ملاکھڑا سندھ کے میلوں کا اہم جز ہے—تصویر ابوبکر شیخ

ہر میلے میں ملاکھڑا سب سے زیادہ توجہ کا مرکز رہتا ہے—تصویر ابوبکر شیخ
ہر میلے میں ملاکھڑا سب سے زیادہ توجہ کا مرکز رہتا ہے—تصویر ابوبکر شیخ

میلوں میں دکانیں لگانے والوں کا معاشی فائدہ ہوتا تھا اِس لیے وہ اپنی دُکانوں کو زیادہ سے زیادہ خوبصورت اور پُرکشش بنانے کے نت نئے طریقے سوچتے یوں وقت کے ساتھ میلوں میں زیادہ جاذبیت پیدا ہونے لگی۔ میلوں کی وسعت میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا، جس کی وجہ میلے میں کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ تھیٹر تماشا، مقامی فنکار، شعبدہ باز اور مختلف قسم کی پہلوانیاں اور ہُنر دکھلانے والے میلوں میں آنے لگے، جس سے میلوں کی ست رنگیوں میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا۔ چونکہ اِن ساری چیزوں کو بیچنے اور دکھانے سے دو پیسوں کی آمدنی ہونے لگی لہٰذا میلوں کا چلن مزید زور پکڑنے لگا۔

ہمارے گاؤں کی زندگی کا منظرنامہ زیادہ وسیع نہیں ہوتا، گاؤں والوں کا دائرہ گھر کے چھوٹے سے آنگن اور کھیت کھلیانوں تک ہی محدود ہوتا ہے۔ وہ ہر موسم اِن پگڈنڈیوں پر چل کر گزار دیتے ہیں۔ فطرت کے مناظر بہت اچھے ہوتے ہیں، فجر کے وقت اُٹھنا، تپتی دوپہروں میں کام کاج کے بعد کسی کیکر کے درخت کی ٹھنڈی گھنی چھاؤں کے نیچے سونا، فطرت سے اتنی قربت بھلا کس کو پسند نہ ہوگی؟ لیکن برس کے 365 دن اگر ایک ہی ڈگر پر چل چل کر گزر جائیں تو زندگی دل ہی دل میں بیزاری کا شکوہ کرتی ہے اور ہر چہار سو ہر رنگ پھیکا پھیکا سا لگنے لگتا ہے، اِس لیے ایسا لینڈ اسکیپ، جہاں تفریح کی پود نہیں اُگتی وہاں برس میں ایک بار کچھ دنوں کے لیے میلے کا لگنا بڑی اہمیت رکھتا ہے۔

میلوں کا یہ موسم اندازاً اکتوبر سے شروع ہوجاتا ہے اور فروری تک چلتا ہے کیونکہ اِن دنوں موسم گرم نہیں ہوتا اور دھول مٹی بھی نہیں ہوتی۔ آسمان کا رنگ نکھرا ہوتا ہے، جھیلیں پانیوں سے بھر جاتی ہیں، ٹھنڈے مُلکوں سے پرندے اِن جھیلوں میں اترتے ہیں۔ کھیتی باڑی کرنے والے لوگ تقریباً فارغ ہوتے ہیں۔ کیونکہ دھان کی فصل بازار میں بک جاتی ہے تو کچھ پیسے بھی ہاتھ میں آجاتے ہیں، لہٰذا ایسے موسم میں میلوں کا لگ جانا اعلیٰ تفریح مہیا کرنے کا ایک سستا اور خُوبصورت ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔ سال میں ایک بار لگنے والے یہ میلے گاؤں میں بسنے والوں کو ایک طرح سے سالانہ تفریح کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ جہاں میلہ سجتا ہے، اُس علاقے کے قرب و جوار میں جتنی بھی بستیاں ہوتی ہیں وہاں کے لوگ چار پانج دنوں تک روزانہ میلے پر آتے ہیں اور اپنے چند شب و روز یادگار بناتے ہیں، اور پھر سارا سال اِن لوگوں کو اگلے برس کا انتظار رہتا ہے کہ پھر کب موسم بدلیں گے اور پھر میلہ لگے گا۔

میلوں میں سب سے زیادہ لطف اندوز چھوٹے بچے ہوتے ہیں—تصویر ابوبکر شیخ
میلوں میں سب سے زیادہ لطف اندوز چھوٹے بچے ہوتے ہیں—تصویر ابوبکر شیخ

میلے میں کھلونوں کی دکان—تصویر ابوبکر شیخ
میلے میں کھلونوں کی دکان—تصویر ابوبکر شیخ

اگر ہم برٹش راج دور کی ’سندھ گزیٹیئر‘ کا مطالعہ کریں تو میلوں کے حوالے سے ہمیں جو معلومات ملتی ہے وہ انتہائی دلچسپ اور حیران کُن ہے۔ گزیٹیئر تحریر کرتا ہے کہ،

’سندھ میں ہاتھ کے ہُنر مندوں کی بنائی ہوئی چیزوں کو فروغ دلوانے کے لیے 1869ء میں کراچی میں سرکار کی طرف سے میلے کے طرز کی صنعتی نمائش کا انعقاد کیا گیا، جس میں عمدہ اور محنتی کاریگروں کو انعامات دیے گئے۔ سندھ کے ہر ضلعے میں ہر برس میلے لگتے ہیں، جیسے ’ہالا’ میں 22 سے زائد میلے لگتے ہیں، جن میں کچھ سال میں دو بار بھی لگائے جاتے ہیں، اِن میلوں میں ایک لاکھ سے بھی زائد افراد شرکت کرتے ہیں۔ اِن میں سب سے بڑا میلہ ’اُڈیرو لال‘ کا تھا جہاں 35 ہزار سے زائد لوگ شرکت کرتے تھے۔ ’روہڑی‘ میں آٹھ بڑے میلوں کا ذکر ملتا ہے۔ اِن آٹھ میلوں میں سے سب سے بڑا میلہ ’خواجہ خضر‘ (ہندو اِس کو ’جند پیر‘ کہتے ہیں) کا تھا جو ایک برس میں دو بار لگتا، ایک سال میں پہلی بار لگنے والا میلہ 9 دنوں تک چلتا اور دوسری بار لگنے والا 3 دن تک چلتا تھا اور اُس میلے میں 30 ہزار سے زائد لوگ آتے۔ ’شاہ بندر‘ میں 7 سے زائد بڑے میلے لگتے۔ ’ننگر ٹھٹھہ‘ کی طرف 20 میلوں کا تاریخی رکارڈ ملتا ہے۔ ’بدین‘ اور ’ٹنڈو محمد خان‘ کی طرف 9 بڑے میلوں کا ذکر ملتا ہے، جس میں ’بلڑی شاہ کریم‘ کے میلے میں 20 ہزار سے زائد معتقدین شرکت کرتے تھے، جبکہ ’بدین‘ میں ’گیارہویں‘ کے میلے میں 10 ہزار سے زائد لوگ آتے تھے اور یہ میلہ 9 دن تک چلتا تھا۔ اِن میلوں میں جو بیوپار ہوتا تھا اُس کے متعلق سندھ گزیٹیئر میں تحریر ہے کہ اِن میلوں میں قیمتی پتھروں، کپڑوں، ریشم، تانبے کے برتنوں اور جانوروں کی خوب خرید و فروخت ہوتی ہے۔‘

ہم پہلے بھی ذکر کرچکے ہیں کہ یہ میلے تفریح کے ساتھ بیوپار کا بھی مرکز بن جاتے۔ لوگ اپنی بچیوں کے جہیز کا بندوبست کرنے کے لیے سال بھر اِن میلوں کا انتظار کرتے، وہ لوگ اپنے مویشی جانور یا اپنے ہاتھ سے بنی ہوئی مصنوعات اِن میلوں میں جاکر بیچتے، کیونکہ بڑے بڑے میلوں میں دُور دراز علاقوں اور شہروں سے خریدار آتے، خریدار کا فائدہ یہ ہوتا کہ اُس کے سامنے ایک وسیع بازار ہوتا وہ جو چاہتا وہ خرید کرسکتا تھا جبکہ بیچنے والے کے لیے بھی مخصوص مارکیٹ کی لکیر نہیں ہوتی تھی، اور وہ بڑے آرام سے معقول رقم میں اپنی چیز بیچ پاتا تھا۔

یہ تھا سندھ میں لگنے والوں کا سرسری جائزہ۔ ہمارے چھوٹے سے شہر (بدین) میں بھی اپنے زمانے کا ایک بہت بڑا میلہ لگتا تھا۔ افسوس کہ میں زیادہ میلوں میں شرکت نہیں کرپایا، کیا کیجئے جناب، یہاں دو پیروں کی گادیوں کی چپقلش میں، ہر برس لگنے والا شاندار میلہ کہیں کھو سا گیا۔ میرے والد بتاتے تھے کہ،

بدین میں لگنے والا ’گیارہویں شریف‘ کا میلہ سندھ کے مشہور میلوں میں سے ایک تھا۔ یہ میلہ 1569ء سے لگنا شروع ہوا اور اتفاق دیکھیے کہ آخری میلہ کوئی 1969ء میں ہی لگا۔ جو آخری چند میلے لگے، اُن میں بھی 50 ہزار سے زائد لوگ آیا کرتے تھے، اِن آخری میلوں میں میرا جانا بھی ہوا۔ اُن دنوں کی یادیں کافی دھندھلی ہوچکی ہیں ہاں بس کُچھ کیفیتوں کو بھُول نہیں پایا ہوں۔ ہمارے اِس چھوٹے سے شہر میں پورے سال تقریباً اِس میلے کا ذکر ہوتا رہتا تھا اور ساتھ ہی میلے کا انتظار بھی اُن تذکروں کے کسی کونے میں آنکھیں مُوندے پڑا ہوتا تھا۔

پھر جیسے ہی میلے کے دن قریب آتے جاتے اُس کی آمد کی خوشی اِن چھوٹی اور کچی بازاروں میں کسی خوشبو کی طرح پھیل جاتی بلکہ دور دراز چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں بھی میلے کی تیاری دانستہ اور غیر دانستہ طور پر شروع ہوجاتی۔ مطلب اگر جیب اجازت دے تو میلے کے لیے کپڑوں کے نئے جوڑے کی خریداری اور سلائی، میلے میں شرکت کے لیے آپس میں صلاح مشورے کہ گھوڑے پر چلنا ہے یا پیدل؟ پھر جیسے شہر میں میلے کی پہلی دُکان کا سامان اُترتا تو اِس بات کی خبر دُور دُور تک پھیل جاتی۔ میرے کانوں تک بھی پہنچتی تو ایک عجیب خوشی کا احساس میری رگُوں میں بھر جاتا، میں اور میری چھوٹی بہن اُس دکان کی بناوٹ دیکھنے کے لیے گھر سے دوڑ پڑتے۔ اِس طرح دن گزرنے کے ساتھ بازاریں بنتی جاتیں۔

گاؤں اور دیگر شہروں سے لوگوں کی آمد کی وجہ سے ہمارے چھوٹے سے شہر کی اکثر ویران رہنے والی گلیاں اِس میلے کی وجہ سے ہر وقت لوگوں سے بھری رہتیں۔ یہ چہل پہل ہم سب کو بڑی بھاتی تھی۔ بدین کا یہ میلہ 8 سے 9 دن تک چلتا۔ میلے میں آئے ہوئے سرکس والوں کے لاؤڈ اسپیکروں کا شور شہر کی فضاؤں میں گونجتا تو میلے میں جیسے جان پڑجاتی۔ میلے میں سجی سجائی دُکانیں ہوتیں، مختلف کہرے رنگوں کی کاغذی جھالروں کی سجاوٹ ہر دکان کی زینت ہوتی، کھوپرے سے بنی مٹھائی کی دکانوں کے درمیان تو جیسے سجاوٹ کا مقابلہ ہوتا، چڑیا گھر میں سے آئے ہوئے مختلف جانوروں کی جھلک دیکھنے کو جی چاہ رہا ہوتا۔ اُس میلے میں جہاں سرکس میں آئے ہوئے ہاتھی کی چنگھاڑ سنائی دیتی وہاں لوگوں سے ہاتھی کے تیز حافظے کا ذکر بھی سننے کو ملتا کہ، ’ہاتھی سے اگر کچھ بُرا کرو تو وہ کبھی نہیں بھولتا، اِس برس نہیں تو اگلے برس وہ اُس آدمی کو پہچان لیتا ہے اور اپنا بدلہ لے لیتا ہے،‘ اصل میں یہ لوگ دوسرے برس کے میلے لگنے کی تمنا کو ہاتھی کی کہانی میں ہی گُوندھ دیتے۔

سندھ کا کوئی ایسا میلہ نہیں ہوگا جہاں کھوپرے کی مٹھائی دستیاب نہ ہو—تصویر ابوبکر شیخ
سندھ کا کوئی ایسا میلہ نہیں ہوگا جہاں کھوپرے کی مٹھائی دستیاب نہ ہو—تصویر ابوبکر شیخ

میلے میں آیا ہوا ہر شخص کوئی نہ کوئی ایسی چیز ضرور خریدتا ہے، جو ایک سال تک اُس میلے کی نشانی بنی رہتی ہے—تصویر ابوبکر شیخ
میلے میں آیا ہوا ہر شخص کوئی نہ کوئی ایسی چیز ضرور خریدتا ہے، جو ایک سال تک اُس میلے کی نشانی بنی رہتی ہے—تصویر ابوبکر شیخ

میلے میں کھلونے اور خواتین کے بناؤ سنگار کا سامان دستیاب ہے—تصویر ابوبکر شیخ
میلے میں کھلونے اور خواتین کے بناؤ سنگار کا سامان دستیاب ہے—تصویر ابوبکر شیخ

جب میلے میں رش بڑھ جاتا تو مجھے اور میری بہن کو اکیلے میلے پر جانے سے روک دیا جاتا کہ کہیں گُم نہ ہوجائیں یا کوئی اُٹھا کر نہ لے جائے۔ مگر جتنے دن میلہ لگا رہتا اتنے دن شام ہوتے ہی ماموں یا ابو روزانہ میلہ گُھمانے لے جاتے۔ میلہ گھومنے کی خوشی کی جو کیفیت ذہن کے راستے جسم میں گھُلتی وہ بڑے کمال کی ہوتی۔ اُس کیفیت کے رنگ 50 برسوں کے بعد بھی ویسے کے ویسے ہی ہیں، کوئی رنگ ابھی تک پھیکا نہیں پڑا۔ پھر میلے کے پانچ چھ روز گزر جانے کے بعد میلے کے آخری دن قریب آجاتے، اور میری مایوسی کے دن شروع ہوجاتے۔

میں گھر کی چھت سے رات کو میلے کی روشنیاں دیکھتا پھر میلے کی اُسی شور میں سو جاتا۔ پھر وہ دن بھی آجاتے جب میلے میں لگی دُکانیں اپنا وجود کھونے لگتیں، اور میلے کی جگہ پر ویرانی ایک بار پھر آکر بس جاتی، میں اور میری بہن میلہ ختم ہونے کے بعد بھی لگاتار دو تین دن وہاں جایا کرتے۔ جہاں میلے کی کچھ نشانیاں نطر آتیں، ٹوٹے ہوئے پیالے، رنگین کٹی ہوئی جھالروں کی پٹیاں جو رسی سے ٹُوٹ کر گررہی ہوتی، سرکس کی جگہ کچھ ٹوٹے ہوئے بانس کے ٹکڑے، بس میلے کی نشانیوں کے طور پیچھے یہی چیزیں رہ جاتی تھیں۔ پھر سورج ڈوبنے لگتا تو میں اور میری بہن گھر لوٹنے کی کرتے، مگر اندر میں میلے کے بازاروں کی ویرانی بس جاتی اور میں اُداس اُداس واپس گھر لوٹ آتا۔ پھر دیکھتے دیکھتے ایک سال گزر جاتا اور ایک بار پھر کوئی دوست میلے میں پہلی دکان لگنے کی خبر سناتا۔

اِس قسم کے میلوں اور ملاکھڑوں میں شرکت کرنے والے نہ جانے کتنے لوگوں سے بات چیت کی ہے۔ اِس حوالے سے ایک بُزرگ سے گفتگو کے دوران انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ،

’ہمارے یہاں تو یہ مشہور ہے کہ نئے کپڑے اگر میلے پر نہیں ملے تو پھر کپڑوں کو آگ لگانی ہے کیا؟‘ یہ ساری محبتیں میلوں کے حصہ میں آئی ہیں، یہ میلے لوگ نہیں لگاتے بلکہ یہ تو اپنے آپ لگتے ہیں۔‘

کہتے ہیں کہ جن سے محبت ہو اُن سے ایک سلسلہ جڑ جاتا ہے، میلے بھی ایسے ہی سلسلوں کا نام ہے جو ہمارے ہاں ہر جگہ پر لگتے ہیں اور اپنے علاقے کی ثقافت کا ایک رنگین اور قدیم عکس پیش کرتے ہیں۔ اِن میلوں کو اِس لیے بھی ختم نہیں ہونا چائیے، کہ یہ ہمارے اَن دیکھے رشتوں، محبتوں اور پیار کے امین ہیں۔


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔