پشاور ہائی کورٹ نے حکومت کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان اور کالعدم جماعت الحرار کے کمانڈر احسان اللہ احسان کے خلاف تحقیقات جاری رکھتے ہوئے انہیں رہا نہ کرنے کا حکم دے دیا۔

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یحیٰ آفریدی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے دوران جاں بحق ہونے والے ایک طالب علم کے والد افضل خان کی جانب سے دائر پٹیشن پر سماعت کی۔

مذکورہ پٹیشن میں درخواست گزار نے حکومت پر الزام لگایا تھا کہ وہ سیکیورٹی فورسز کی حراست میں موجود کالعدم تنظیم کے سابق کمانڈر کو ریلیف دینے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

مزید پڑھیں: احسان اللہ احسان سے متعلق وفاق کو تفصیلی جواب جمع کرانے کی ہدایت

13 دسمبر کو کیس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت نے احسان اللہ احسان سے متعلق اپنی دوسری رپورٹ پیش کی تاہم یہ رپورٹ عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکام رہی۔

حکومت نے اپنے تحریری جواب میں عدالت کو بتایا کہ احسان اللہ احسان سے تفتیش جاری ہے۔

عدالت عالیہ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد حکومت کو تفتیش جاری رکھنے اور احسان اللہ احسان کو رہا نہ کرنے کا حکم دیا۔

اس سے قبل 24 اکتوبر 2017 کو پشاور ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت احسان اللہ احسان کے حوالے سے تفصیلی جواب جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: احسان اللہ احسان کےخلاف پشاور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر

خیال رہے کہ احسان اللہ احسان کا تعلق کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا اور وہ اس تنظیم کے ترجمان کی حیثیت سے کام کررہے تھے، ان پر ملک میں ہونے والے متعدد حملوں میں ملوث ہونے کا الزام بھی ہے۔

ان کے حوالے سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انہوں نے خود سیکیورٹی اداروں کو گرفتاری دی تھی اور وہ اس وقت سیکیورٹی اداروں کی تحویل میں ہیں۔

واضح رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں واقع آرمی پبلک اسکول پر تباہ کن حملے میں 144 بچے اور عملے کے ارکان جاں بحق ہوئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں