فیض آباد دھرنے کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا مطالبہ
اسلام آباد: انسانی حقوق کی سرگرم کارکن اور وکیل عاصمہ جہانگیر نےمطالبہ کیا ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان فیض آباد انٹر چینج پر مذہبی جماعت کے دھرنے کے پیچھے پوشیدہ اسباب جاننے کے لیے پارلیمانی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ ‘ان محرکات کی بھی تحقیقات کی جانی چاہیے کہ دھرنے والوں کے خلاف سیکیورٹی اداروں کے کامیاب آپریشن کے بعد نئی کمک کہاں سے پہنچی’۔
پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن (ایچ آر سی پی) کی منعقدہ تقریب سے خطاب میں ماہر قانون نے کہا کہ ‘ہم فیض آباد انٹر چینج دھرنے پر جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نہیں چاہتے لیکن مطالبہ ہے کہ پارلیمانی کمیٹی معاملے کی مکمل تحقیقات کرے’۔
یہ پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: کب، کیا اور کیسے ہوا
ایچ آرپی سی میں مذہبی مقامات کے تحٖفظ کے لیے زیر غور حکمت عملی کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں عاصمہ جہانگیر نے واضح کیا کہ ‘فیض آباد انٹر چینج کے شرکاء اور حکومت کے درمیان پاک فوج کن بنیادوں پر ضامن بنی اور مظاہرین میں رقم کی تقسیم کا معاملہ کیا ہے’۔
واضح رہے کہ فیض آباد انٹر چینج پر دھرنے کے دوران تحریک لیبک پاکستان کی جانب سے وزیر قانون زاہد حامد کی برطرفی کا مطالبہ کیا گیا تھا، یہ دھرنا 20 روز تک جاری رہا تھا جس کے بعد 25 نومبر 2017 کو سیکیورٹی اداروں نے دھرنے کے شرکاء کے خلاف صبح 7 بجے آپریشن کا آغاز کیا اور وہ شرکاء کو منتشر کرنے میں کامیاب ہوگئے تاہم کچھ ہی گھنٹوں بعد دوبارہ نئی کمک نے فیض آباد انٹر چینج پر دھرنا دے دیا تھا۔
سماجی رکن کا دعویٰ تھا کہ ‘حکومت اور سول سوسائٹیز یرغمال ہو چکی ہیں اور سیاست میں عسکریت پسندی کا پیوند لگنا شروع ہوگیا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘جو عناصر بلوچستان اور فاٹا کے مسئلے پر کھیل رہے ہیں وہ ہی لوگ ملکی اداروں (اپوزیشن، معشیت اور وزارت خارجہ) پر بھی اثر انداز ہیں’۔
مزید پڑھیں: فیض آباد آپریشن: پولیس نے اپنی ناکامی کا اعتراف کرلیا
عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ فیض آباد دھرنے سے واضح پیغام مل چکا ہے کہ ‘پراکسی جنگ’ کے لیے ہر قسم کی طاقت استعمال ہو سکتی ہے، ان میں وہ سیاستدان، وکلا اور گروپ شامل ہیں جو مذہب کے نام پر سیاست کرتے ہیں اور بدقسمتی سے سیاسی جماعتیں (ان کے سامنے) پسپائی اختیار کر لیتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فاٹا اصلاحات بل کے پس پردہ ‘انہی لوگوں’ کا کردار ہے اور ‘اگر سیاستدان صورتحال کو سنبھالنے سے قاصر ہیں تو انہیں عوام کے پاس جانا چاہیے’۔
عاصمہ جہانگیر نے سول سوسائٹی کے کردار کو سراہاتے ہوئے کہا کہ سماجی تنظیموں نے کراچی میں حقوق کے لیے دستخط مہم شروع کی لیکن سیاسی تنظمیوں کی جانب سے کوئی مثبت رویہ سامنے نہیں آیا۔
انہوں نے عندیہ دیا کہ ‘ذرائع ابلاغ، چیمبر آف کامرس اور دیگر اسٹیک ہولڈز سے مشاورت کے بعد سماجی تنظمیوں کا چارٹرڈ بنایا جائے گا’۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ‘تجاوزات’ کسی بھی اعتبار سے قبول نہیں کیوں کہ جب کبھی آمریت نے پاکستان کے سینے پر پنجے گاڑے ملک کو اپنے معتین راستوں پر لانے کے لیے 20 برس عرصہ لگا۔
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں بھی سینسرشپ عام ہے اور سیاستدانوں کو دھمکیوں کا سامنا ہے۔
مزید پڑھیں: 'اسلام آباد دھرنا حکومت کے خلاف سازش'
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے سیاستدانوں سے اپنی آواز بلند کرنے کی درخواست کی ہے تاہم ہم خاموش نہیں رہیں گے کیونکہ وہ (سیاستدان) سازشوں کے تانے بانے بنانے والوں کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے تیار نہیں’۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) اور پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے رہنماؤں کا سانحہ ماڈل ٹاؤن پر ڈاکٹر طاہر القادری سے اظہار یکجہتی اور ممکنہ اتحاد کے بعد اسلام آباد میں دھرنے سے متعلق سوال پر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ‘ڈاکٹر طاہر القادری اب نوابزادہ نصراللہ خان بن چکے ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘سیاستدانوں کو صحیح اور غلط کے درمیان لال لکیر کھینچ کر اس پر غور و فکر کرنا چاہیے’۔
معروف سماجی رکن اور کالم نگار آئی اے رحمان نے واضح کیا تمام سیاسی پارٹیاں ایک نقطے پر جمع ہو کر تمام اداروں کو یہ پیغام دیں کہ سب کو اپنے دائرکار میں کام کرنے کا پورا حق ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘کسی ادارے کو دوسرے ادارے کے معاملات میں دخل اندازی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، ایکزیکٹو، عدلیہ کے امور میں اور عدلیہ، ایکزیکٹو کے معاملات اور مسائل میں مداخلت نہیں کرسکتے’۔
یہ خبر 17 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی











لائیو ٹی وی