اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا ہے کہ توہین رسالت کا چھوٹا الزام لگانے والا دوہرے جرم کا مرتکب ہوا ہے جبکہ ٹرائل کورٹ فیصلہ کرے گی کہ الزام لگانے والا جھوٹا ہے یا شواہد ناکافی ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کے خلاف فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) اور اسپیشل سیکریٹری داخلہ عدالت میں پیش ہوئے تھے۔

سماعت کے دوران ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے نے بیرون ملک فرار ہونے والے چار ملزمان کو واپس لانے کے لیے انٹرپول سے رابطہ کرلیا ہے۔

مزید پڑھیں: گستاخی کے ملزم نے تمام الزامات مسترد کر دیے

ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ چار گرفتار ملزمان سے تفتیش مکمل کرلی گئی ہے اور ٹرائل کورٹ میں چالان پیش کردیا گیا ہے جبکہ پٹیشن میں جن 5 افراد پر الزام لگایا گیا تھا ان کے خلاف شواہد نہیں ملے۔

جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ جن کے خلاف شواہد نہیں ملے ان کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والا دوہرے جرم کا مرتکب ہوتا ہے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ فیصلہ کرے گی کہ الزام لگانے والا جھوٹا ہے یا شواہد ناکافی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں کی گستاخی پر مقدمہ درج

عدالت نے ایف آئی اے اور پی ٹی اے کو تمام وسائل فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ منفی رجحانات میں پاکستان پہلے نمبر پر جارہا ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیئے کہ ٹی وی چینلز پبلک سروس مسیج کیوں نہیں چلاتے، ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والے چینلز کے اشتہارات بند کردیں۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے صحافیوں سے سوال کیا کہ بتائیں جھوٹی خبر دینے کی کیا سزا ہے؟

علاوہ ازیں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے پاکستان الیکٹرانک کرائم بل کا ترمیمی مسودہ عدالت میں پیش کیا اور بتایا کہ توہین آمیز اور غیر اخلاقی مواد بھی نئے قانون میں شامل ہیں۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ بیرسٹر ظفر اللہ کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے متفقہ طور پر مسودے کی منظوری دی ہے۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ترمیمی مسودہ 26 دسمبر کو ہونے والے کابینہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل ہے۔

بعد ازاں عدالت نے وزارت داخلہ، ایف آئی اے اور پی ٹی اے کو مل کر ورکنگ پیپر تیار کرکے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا اور این جی اوز کے خلاف فیصلے سے اب تک ہونے والی کارروائی کی رپورٹ بھی طلب کی۔

مزید پڑھیں: سوشل میڈیا پرگستاخانہ مواد شائع کرنے والوں کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم

اس موقع پر پی ٹی اے نے موقف اختیار کیا کہ ویب انالیسز ونگ روزانہ رپورٹنگ اور بلاکنگ کررہا ہے۔

سماعت کے دوران ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا تھا کہ توہین آمیز مواد روکنے اور کارروائی کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، تاہم 15 تفتیشی افسران اور 12 ہزار شکایات ہیں جبکہ مناسب سہولیات کے فقدان کے باوجود کام جاری ہے۔

بعد ازاں عدالت عالیہ نے فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق قانون سازی اور کارروائی کی تفصیلات طلب کیں اور 26 جنوری تک پیمرا، ایف آئی اے ، پی ٹی اے اور وزارت داخلہ کو رپورٹ فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

واضح رہے کہ مبینہ گستاخی کے مرتکب افراد کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ نے مقدمات کے اندراج، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) اور مشتبہ افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل) میں ڈالنے کا حکم دیا تھا جبکہ سوشل میڈیا سے گستاخانہ مواد کو ہٹانے کے لیے سرکاری مشینری استعمال کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔

عدالت نے متعلقہ حکام کو یہ ہدایات بھی دی تھیں کہ وہ الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے قانون میں توہین مذہب اور پورنوگرافی سے متعلق شقیں شامل کریں۔

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے مقننہ سے موجودہ قوانین میں ترمیم کرنے کی بھی سفارش کی تھی تاکہ گستاخی کے جھوٹے الزامات لگانے والوں کو بھی گستاخی کرنے والے کے برابر سزا دی جاسکے۔

تبصرے (0) بند ہیں