اسلام آباد: امریکی نائب صدر مائک پینس کی جانب سے دی جانے والی دھمکی پر پاکستان نے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکا پر واضح کردیا کہ اتحادی ایک دوسرے کے لیے تنبیہ جاری نہیں کرتے۔

ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل نے ایک جاری بیان میں کہا کہ امریکی نائب صدر کی جانب سے افغانستان میں دیا جانے والا حالیہ بیان امریکی انتظامیہ سے پاکستانی حکام کی ہونے والی ملاقاتوں اور بات چیت سے بلکل مختلف ہے۔

ترجمان نے امریکی نائب صدر کی دھمکی پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا اتحادی ایک دوسرے کے لیے تنبیہ جاری نہیں کرتے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کو ایک تنبیہ ان لوگوں کو بھی جاری کرنی جانا چاہیے جو افغانستان میں منشیات کی پیدوار، غیر سرکاری اور انتظامی مقامات کی توسیع، صنعتی پیمانے پر بد عنوانی، حکومت کو ختم کرنے اور داعش کو یہاں جڑیں مضبوط کرنے کی اجازت دینے میں ملوث ہیں۔

مزید پڑھیں: دہشتگردوں کو پناہ دینے پر پاکستان کو بہت کچھ کھونا پڑے گا، امریکا

دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ امن قائم کرنے کے لیے مذاکراتی میکنزم پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بالآخر، اپنی ناکامی کے الزامات دوسروں پر ڈالنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

خیال رہے کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پاکستان نے امریکی حکام کی دھمکی کا سخت الفاظ میں جواب دیا ہے، ترجمان دفتر خارجہ کا یہ بیان امریکی نائب صدر مائک پینس کی جانب سے گذشتہ روز افغانستان میں پاکستان کو دی جانے والی دھمکی کے بعد سامنے آیا۔

امریکی نائب صدر نے کہا تھا کہ پاکستان کو دہشت گردوں اور مجرموں کو پناہ دینے پر بہت کچھ کھونا پڑے گا لیکن امریکا کے ساتھ شراکت داری پر پاکستان بہت کچھ حاصل کرسکتا ہے۔

واضح رہے کہ افغان جنگ کے آغاز کے بعد 16 برس میں امریکا کی جانب سے یہ سب سے خطرناک انتباہ ہے۔

نائب صدر نے گزشتہ روز افغانستان کا غیر اعلانیہ دورہ کیا تھا اور کابل میں افغان رہنماؤں سے ملاقات کی جبکہ بگرام ایئر بیس پر امریکی فوجیوں سے خطاب کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کو نوٹس پر رکھا ہوا ہے اور میں اب ان کی بات کو دہراتا ہوں کہ پاکستان سرحد پار موجود طالبان کے گروہوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم نہ کرے جبکہ ان گروہوں کو امریکی فورسز اور افغان اتحادیوں کے خلاف لڑائی سے روکے۔

مائک پینس نے امریکی فوجیوں کی خدمات پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں نے طالبان کو بھاگنے پر مجبور کردیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ امریکی عوام یہ جاننے کا حق رکھتے ہیں کہ یہاں پر موجود ہر کسی کی جرات کے باعث ہم افغانستان میں آزادی کی اس جنگ میں حقیقی پیش رفت حاصل کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ڈرامائی طور پر امریکی فضائی حملوں میں اضافہ کیا اور افغان ساتھیوں کے ساتھ مل کر طالبان کو محدود کردیا، اس کے علاوہ ہم نے طالبان کو فنڈنگ میں مدد کرنے والے منشیات کے اڈوں کو بھی نشانہ بنایا۔

امریکی نائب صدر کی مذکورہ دھمکی کے جواب میں پاکستان کی سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے کہا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہیں موجود نہیں۔

تہمینہ جنجوعہ نے امریکی نائب صدر مائک پینس کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے اسے مسترد کیا اور کہا تھا کہ پاکستان دشمن ممالک کی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنا ہوا ہے اور اسے مسلسل بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا حافظ سعید کے خلاف یکطرفہ کارروائی کے بیان پر امریکا سے بات چیت کررہے ہیں، انہوں نے سوال اٹھایا کہ محض اطلاعات کی بنیاد پر یکطرفہ کارروائی کیسے کی جاسکتی ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف مسلسل استعمال ہورہی ہے، بھارت افغان سرزمین پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں‘

اس سے قبل گزشتہ ہفتے پینٹاگون نے کانگریس کو بتایا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بڑھانے کے باجود پاکستان کے ساتھ ملحقہ علاقوں میں یکطرفہ اقدامات اٹھائیں گے۔

رواں ماہ سے قبل امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹیلر نے پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ وہ اپنے علاقوں پر کنٹرول کھودے گا اگر اس نے حقانی نیٹ ورک اور دیگر دہشتگردوں کے ساتھ روابط نہیں ختم کرے گا۔

پاکستان کی جانب سے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے بے بنیاد قرار دیا گیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اپنی سرزمین سے آپریشن کے دوران دہشت گردوں کی تمام محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کردیا ہے اور ساتھ ہی پاکستان نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف نرم گوشہ رکھنے کی تردید بھی کی تھی۔

یاد رہے کہ 11 ستمبر 2001 میں نیو یارک اور واشنگٹن میں ہونے والے حملوں کے بعد امریکا کی جانب سے القاعدہ اور طالبان کے خلاف شروع کی گئی مہم کو حالیہ دنوں میں امریکی عوام کی جانب سے بہت کم توجہ کا حاصل ہورہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں