سعودی عرب کے سابق فرمانروا عبداللہ بن عبدالعزیز کے دو بیٹوں، جنھیں ریاض کے رٹز کارلٹن ہوٹل میں گذشتہ ماہ کرپشن کے الزامات میں قید کیا گیا تھا، کو رہا کردیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے اٹارنی جنرل نے حکومت سے مالیاتی معاہدوں کے بعد شہزادہ مشال بن عبداللہ اور شہزادہ فیصل بن عبداللہ کی رہائی کی منظوری دی۔

ذرائع کے مطابق اٹارنی جنرل نے ان کے تیسرے بھائی ترکی بن عبداللہ کی رہائی کا فیصلہ اب تک نہیں کیا ہے۔

خیال رہے کہ رواں سال نومبر کے آغاز میں سعودی حکومت کی جانب سے کرپشن کے خلاف تاریخ کی سب سے بڑی کارروائی کے تحت شہزادوں، وزرا اور ارب پتی تاجروں سمیت درجنوں افراد کو گرفتار اور برطرف کیا گیا تھا۔

اس کے کچھ روز بعد نومبر ہی کے مہینے میں درجنوں شہزادوں، کاروباری افراد اور حکومتی عہدیداروں سمیت تقریباً 200 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا اور کریک ڈاؤن کے دوران 2 ہزار سے زائد بینک اکاؤنٹس منجمد کیے گئے تھے۔

سعودی وزارت اطلاعات نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’اب تک 208 افراد کو سوال و جواب کے لیے طلب کیا گیا، جن میں سے 7 کو بغیر کسی الزام کے رہا کردیا گیا۔‘

کرپشن کے الزام میں گرفتار کیے جانے والے ان افراد کو دارالحکومت ریاض کے پرتعیش ’رِٹز ہوٹل‘ میں حراست میں رکھا گیا تھا اور انہیں اپنے اثاثے اور نقد رقم حکومت کے حوالے کرنے کے عوض آزادی کی پیشکش کی گئی تھی۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی ہدایت پر گرفتار ہونے والے شہزادوں، کاروباری افراد اور حکومتی عہدیداروں میں سے کئی افراد وقتاً فوقتاً رہا کیا جاتا رہا ہے۔

28 نومبر کو سعودی بادشاہت کے لیے ایک مضبوط امید وار متعب بن عبداللہ کو معاہدے کے تحت رہا کردیا گیا تھا۔

کچھ روز قبل سعودی حکومت نے مزید 23 افراد کو معاہدے کے بعد رہا کیا تھا جو رہائی پانے والوں میں سے سب سے زیادہ تعداد تھی۔

واضح رہے کہ سعودی انتظامیہ رہائی کے بدلے حاصل ہونے والی رقم اور اثاثوں کو بلیک میلنگ کے طور پر نہیں دیکھ رہی بلکہ کئی دہائیوں تک غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی دولت کی واپسی کو رہائی پانے والوں کی ذمہ داری قرار دیتی ہے۔

یہ خیال کیا جارہا ہے کہ آنے والے دنوں میں حراست میں رکھنے والے مزید افراد رہا ہوں گے اور الزامات سے مسلسل انکار کرنے والوں کے خلاف ٹرائل کا جلد آغاز ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں