اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت کی پولیس نے صحافی طحٰہ کو 10 سے 12 مسلح افراد کے کی جانب سے مارنے اور قتل کردینے کی دھمکیوں کے واقعے کی تحقیقات کا آغاز کردیا۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی اسد ہاشم نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں بتایا کہ طحٰہ صدیقی کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا، انہیں جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ نامعلوم مسلح افراد طحٰہ صدیقی کی تمام ضروری اشیا بھی ساتھ لے گئے۔

ذرائع نے بتایا کہ مسلح افراد طحٰہ صدیقی کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر اپنے ساتھ لے کر جارہے تھے کہ انہوں نے چلتی گاڑی میں سے باہر چھلانگ لگا دی، جس کے باعث اپنے آپ کو اغوا ہونے بچانے میں کامیاب ہوگئے۔

سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) ڈاکٹر مصطفیٰ تنویر نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ طحٰہ صدیقی نے پولیس سے کو واقعے سے متعلق مطلع کر دیا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستانی آزادی صحافت

بعدِ ازاں طحٰہ صدیقی نے صحافی سرل المیڈا کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کا استعمال کرتے ہوئے پہلے ان کا اکاؤنٹ استعمال کرنے کی وضاحت کی اور بعد میں انہوں نے اغوا کرنے کی ناکام کوشش کے واقعے کی روداد سنائی۔

اپنے پیغام میں انہوں نے بتایا کہ وہ آج صبح تقریباً 8 بجے کے قریب وہ ایئرپورٹ کی جانب جارہے تھے تو 10 سے 12 مسلح افراد نے ان کی ٹیکسی کو روک کر اغوا کرنے کی کوشش کی۔

ایس پی تنویر نے بتایا کہ جب مسلح افراد نے طحٰہ صدیقی کو روکا تھا اس وقت صحافی ایک نجی ٹیکسی سروس کی گاڑی میں موجود تھے۔

اپنے پیغام میں طحٰہ صدیقی نے بتایا کہ وہ مسلح افراد کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے، اس وقت محفوظ ہیں اور پولیس کے پاس ہیں، تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اس وقت اپنی مدد کے منتظر ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس مئی میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے طحٰہ صدیقی کو ایک نوٹس جاری کیا تھا جس میں انہیں ادارے کے انسداد دہشت گردی ونگ کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا گیا۔

بعدِ ازاں طحٰہ صدیقی کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست جمع کرائی تھی جس میں انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ ایف آئی اے اہلکار انہیں فون کر کے ہراساں کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ڈان نیوز، چینل 24 رپورٹر کے ساتھ ایف آئی اے حکام کی بدسلوکی

انہوں نے اپنی درخواست میں الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک نعمان بودلا نامی شخص فون کرکے اپنے آپ کو ایف آئی اے کے شعبہ انسدادِ دہشت گردی کا اہلکار ظاہر کیا تھا اور ان پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ ’ایک تفتیش‘ میں اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز میں پیش ہوں۔

گزشتہ برس 24 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی کو صحافیوں کو ہراساں کرنے سے روکنے کا حکم دے دیا تھا۔

خیال رہے کہ پاکستان میں جبری گمشدگی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور گزشتہ برس نومبر میں ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس نے پاکستان کو صحافیوں کے لیے انتہائی خطرناک ملک قرار دیا تھا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Mustafa Jan 10, 2018 02:58pm
very bad......................people are feeling unsafe if such important personalities are being threatened to be abducted....