کراچی: انتظار قتل کیس میں عدالت نے اینٹی کار لفٹنگ سیل (اے سی ایل سی) کے گرفتار اہلکاروں کو 7 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔

کراچی کی جوڈیشنل مجسٹریٹ جنوبی کی عدالت میں ڈیفنس میں قتل ہونے والے نوجوان انتظار کے قتل میں گرفتار ملزمان کو پیش کیا گیا۔

عدالت میں پیشی کے موقع پر ملزمان کے چہروں سے کپڑے ہٹانے کا کہا گیا اور انہیں چیمبر میں پیش کرنے کا حکم دیا گیا۔

عدالت میں سرکاری وکیل کی جانب سے کہا گیا کہ ملزمان کا 14 روزہ جسمانی ریمانڈ دیا جائے تاکہ واقعے کی شفاف تحقیقات ہوسکیں، تاہم عدالت نے ملزمان کو 7 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا۔

مزید پڑھیں: ڈیفنس میں نوجوان کا قتل: اینٹی کار لفٹنگ سیل کے 4 اہلکار گرفتار

واضح رہے کہ ہفتے کی شب کو ڈیفنس کے علاقے خیابان اتحاد پر گاڑی نہ روکنے پر اے سی ایل سی اہلکاروں کی جانب سے گاڑی پر فائرنگ کی گئی تھی، جس کے نتیجے میں 19 سالہ نوجوان انتظار احمد جاں بحق ہوگیا تھا۔

اس واقعے کے بعد پولیس کی جانب سے واقعے کو دہشت گردی کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی تھی تاہم بعد ازاں درخشاں تھانے میں اس کا مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔

اس واقعے کے بعد مقتول انتظار کے والد کی جانب سے چیف جسٹس اور آرمی چیف سے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی گئی تھی جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ملوث اہلکاروں کی گرفتاری کا حکم دیا تھا۔

گرفتار ملزمان کا بیان قلمبند

دوسری جانب پولیس ذرائع کے مطابق تحقیقات کے دوران گرفتار اہلکاروں نے پولیس کو بیان قلمبند کرادیا، بیان میں کہا گیا کہ ڈی ایچ اے میں حکومتی گاڑی کے چیھنے جانے کی اطلاعات کے بعد اے سی ایل سی نے خیابان بخاری کے علاقے میں اسنیپ چیکنگ کے لیے پکٹ لگائی تھی۔

ذرائع کے مطابق اپنے بیان میں ملزمان نے کہا کہ انسپکٹر طارق اور اظہر کی سربراہی میں اے سی ایل سی کے اہلکار سادہ لباس میں بلٹ پروف جیکٹس پہن کر گاڑیوں کی تلاشی لے رہے تھے۔

اسی دوران پولیس اہلکاروں کی جانب سے انتظار کو گاڑی روکنے کا اشارہ کیا گیا لیکن اس نے رکنے سے انکار کردیا، جس کے بعد اس کا پیچھا کیا گیا اور اس کی گاڑی کے ٹائروں پر اپنے ذاتی اسلحے سے فائر کیے تھے۔

ذرائع کے مطابق حراست میں لیے گئے اے سی ایل سی اہلکاروں کے قبضے سے 3 لائنسن یافتہ 9 ایم ایم پستول برآمد ہوئے جبکہ ان ہتھیاروں سمیت 16 گولیوں کے خول بھی جائے وقوع سے برآمد کیے گئے تھے، جنہیں فارنزک ٹیسٹ کے لیے بھیج دیا گیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ شب پولیس کی جانب سے انتظار قتل کیس میں دو انسپکٹر، دو ہیڈ کانسٹیبل اور دو افسران کو حراست میں لیا گیا تھا۔

حراست میں لیے گئے معطل پولیس اہلکاروں میں اے سی ایل سی پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او طارق محمود، انسپکٹر اظہر احسن رضوی، ہیڈ کانسٹیبل غلام عباس اور شاہد اور کانسٹیبل غلام عباس اور فواد خان شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: دودریا نوجوان قتل کیس، عدالت کا تین مبینہ ملزمان کی رہائی کا حکم

اس سے قبل ایک سینئر پولیس افسر نے ڈان کو بتایا تھا کہ اس واقعے میں 9 اے سی ایل سی کے اہلکار ملوث تھے، جس میں سے تین روپوش ہوگئے ہیں، یہ اہلکار سادہ کپڑوں میں ملبوث تھے تاہم ان کے پاس اسلحہ موجود تھا۔

انہوں نے بتایا کہ یہ اہلکار 2 موٹر سائیکلوں اور ایک کار پر سفر کر رہے تھے اور یہ تمام نجی گاڑیاں تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہفتے کی شب اے سی ایل سی حکام نے نوجوان کی گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا تھا لیکن وہ نہیں رکا، جس کے بعد شک ہونے پر پولیس کی جانب سے گاڑی کا تعاقب کیا گیا اور گاڑی پر فائرنگ کردی گئی، جس کے نتیجے میں متعدد گولیاں لگنے سے نوجوان جاں بحق ہوگیا۔

پولیس افسر نے بتایا کہ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ لڑکا اکیلا تھا یا اس کے ساتھ کوئی دوست لڑکی یا لڑکا موجود تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں