کراچی کی مقامی عدالت نے انتظار احمد قتل کیس میں مفرور ملزم طارق رحیم کی درخواست ضمانت 23 جنوری تک 5 لاکھ روپے کے مچلکے کے عوض منظور کرلی گئی۔

واضح رہے کہ انتظار قتل کیس میں مفرور ملزم طارق رحیم نے عبوری ضمانت کے لیے عدالت سے درخواست کی تھی۔

اپنی درخواست کے دروان ملزم نے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ ٹرائل کورٹ میں پیش ہونے اور تفتیشی افسر سے ہر ممکن تعاون کرنے کے لیے تیار ہے لیکن انہیں گرفتار نہیں کیا جائے۔

جس پر عدالت نے مفرور ملزم کی درخواست سنتے ہوئے 23 جنوری تک ضمانت منظور کرلی۔

مزید پڑھیں: انتظار قتل کیس: گرفتار ملزمان 7 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

خیال رہے کہ انتظار قتل کیس میں 8 ملزمان گرفتار ہیں، جس میں ایس ایچ او طارق محمود، غلام عباس، اظہر احسن، فواد خان، دانیال، بلال، شاہد و دیگر شامل ہیں، جبکہ ملزم دانیال اور بلال ایس ایس پی اینٹی کار لفٹنگ سیل ( اے سی ایل سی) کے محافظ بھی ہیں۔

فارنزک رپورٹ

دوسری جانب مقتول انتظار کی ابتدائی فارنزک رپورٹ جاری کردی گئی، جس کے مطابق انتظار پر 2 پستول سے 18 گولیاں فائر کی گئیں۔

ڈان نیوز کے مطابق موقع سے ابتدائی فارنزک رپورٹ گولیوں کے 18 خول اور اہلکاروں سے برآمد اسلحہ کا معائنے کے بعد جاری کی گئی۔

رپورٹ کے مطابق ایک پستول سے 12 گولیاں جبکہ دوسرے ہتھیار سے 6 گولیاں فائر کی گئی، تاہم مکمل فارنزک رپورٹ جاری ہونے بعد ہی پتہ چلے گا کہ یہ ہتھیار کس پولیس اہلکار کا تھا۔ خیال رہے کہ فارنزک لیبارٹرکی کو موازنے کے لیے پولیس اہلکاروں کے 4 پستول بھی فراہم کیے گئے تھے۔

گاڑی میں موجود لڑکی شامل تفتیش

کیس کے تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ پولیس کا انتظار کے ساتھ گاڑی میں موجود لڑکی سے باضابطہ طور پر رابطہ ہوگیا، جس کے بعد اس کو شامل تفتیش کر لیا گیا جبکہ لڑکی کا ابتدائی بیان بھی ریکارڈ کر لیا گیا۔

اپنے بیان میں لڑکی نے بتایا کہ ’فائرنگ کے وقت میں اور انتظار گاڑی میں تھے، برگر لینے کے بعد انتظار کا ایک دوست نظر آیا جس سے انتظار نے ہاتھ ملایا۔‘

لڑکی نے کہا کہ ’کچھ ہی دیر بعد ایک گاڑی ہماری گاڑی کے آگے آئی، گاڑی کے بعد ایک موٹر سائیکل اور دوسری گاڑی بھی آئی، ہماری گاڑی کو روکا گیا اور کچھ لوگوں نے گاڑی کے اندر دیکھا، گاڑی کے اندر دیکھنے والے نے کچھ اشارہ کیا اور پیچھے والی گاڑی کچھ ریورس ہوئی تو انتظار سے پوچھا کیا ہو رہا ہے؟ انتظار نے اپنی گاڑی آگے بڑھائی تو فائرنگ ہوگئی۔‘

قتل کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ

گزشتہ شب انتظار کے والد اشتیاق احمد نے پولیس کی تفتیش پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کیس کی جوڈیشل انکوائری کروانے کا مطالبہ کیا تھا۔

انتظار کے والد نے کہا تھا کہ میرے بیٹے کے قتل میں پولیس اہلکار ہی ملوث ہیں تو پولیس کیسے اپنے ساتھیوں کو سزا دلوائے گی؟

اس مطالبے کے بعد حکومت سندھ نے عدالت کو خط لکھا تھا، جس میں واقعے کی جوڈیشل انکوائری کی درخواست کی گئی تھی۔

انتظار قتل کب کیا ہوا؟

ڈیفنس کے علاقے خیابان اتحاد میں ہفتہ 13 جنوری 2018 کی شب کو اے سی ایل سی اہلکاروں کی جانب سے ایک گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا گیا تھا، جس کے نہ رکنے پر اہلکاروں نے فائرنگ کی تھی، جس سے 19 سالہ نوجوان انتظار احمد جاں بحق ہوگیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈیفنس میں نوجوان کا قتل: اینٹی کار لفٹنگ سیل کے اہلکار گرفتار

ابتدائی طور پر پولیس کی جانب سے اس واقعے کو دہشتگری کا واقعہ قرار دیا جارہا تھا، تاہم بعد ازاں درخشاں تھانے میں اس کا مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔

اس واقعے کے بعد مقتول انتظار کے والد اشتیاق احمد کی جانب سے چیف جسٹس اور آرمی چیف سے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی گئی تھی جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ملوث اہلکاروں کی گرفتاری کا حکم دیا تھا۔

14 جنوری کو اس کیس میں 6 اے سی ایل سی اہلکاروں کو حراست میں لیا تھا، جس میں 2 انسپکٹر، 2 ہیڈ کانسٹیبل اور 2 افسران بھی شامل تھے۔

15 جنوری کو ان ملزمان کو کراچی کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں عدالت نے ملزمان کو 7 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا۔

بعد ازاں انتظار احمد کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی سامنے آئی تھی، جس میں معلوم ہوا تھا کہ نوجوان کی ہلاکت صرف ایک گولی لگنے سے ہوئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اے سی ایل سی اہلکاروں نے انتظار پر 17 سے زائد گولیاں چلائیں جبکہ مقتول انتظار کو سیدھے کان کے پیچھے ایک گولی لگی جو اس کے سر سے آر پار ہوگئی تھی جس کے بعد وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں