اسلام آباد: سینیٹ کے سابق چیئرمین نیئر حسین بخاری نے حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے منصوبوں کو شروع کرکے پانی کے ذخائر سے چھیڑ چھاڑ کرتی ہے اور بعد میں ان منصوبوں کی تکمیل نہیں کی جاتی۔

یہ الزام اس وقت سامنے آیا جب پانی کے ذخائر کی وزارت کے ایک اہلکار نے سینیٹ فورم برائے پالیسی ریسرچ (ایس ایف پی آر) کو بتایا کہ پبلک سیکٹر ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں 36 ارب روپے کے 81 پانی سے متعلق منصوبے شامل کیے گئے تھے، تاہم ان منصوبوں کے لیے مکمل فنڈز جاری نہیں کئے گئے۔

نیئر حسین بخاری نے بتایا کہ ان میں سے زیادہ تر منصوبے صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے شروع کیے گئے تھے، جنہیں مکمل نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: منگلہ ڈیم میں پانی کی شدید قلت کے باعث بجلی کی پیداوار بند

انہوں نے کہا کہ صرف ان منصوبوں کو پی ایس ڈی پی میں شامل کیا جانا چاہیے تھا، جنہیں مکمل کیا گیا اور تمام قلیل اور طویل مدتی منصوبوں کے لیے فنڈز پیشگی طور پر جاری کیے جانے چاہیے تھے۔

نیئر بخاری نے کہا کہ وہ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی سے درخواست کریں گے کہ وہ پانی کے معاملے پر ایوان میں بحث کرائیں، مزید یہ کہ پاکستان میں قانون سازی کے لیے برطانیہ کی مثال کو ترجیح دی جاسکتی ہے، جس میں وہ نہروں اور دریاؤں کے پانی کا تحفظ کرتے تھے۔

بریفنگ کے دوران پانی کے ذخائر کی وزارت نے پارلیمانی پینل کو آگاہ کیا کہ ہر سال ہزاروں کیوبک فٹ پانی پاکستانیوں کو دستیاب ہوتا ہے لیکن آئندہ برسوں میں اس پانی کی فراہمی میں 863 کیوبک فٹ کمی کا امکان ہے۔

بریفنگ کے دوران اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ سیلاب کے باعث پاکستان 38 ارب ڈالر کا نقصان اٹھا چکا ہے کیونکہ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے پاس جدید ٹیلیمیٹری نظام موجود نہیں ہے۔

وزارت کے حکام نے خبردار کیا کہ پانی کی کمی میں اضافہ ہورہا ہے اور صورتحال مزید خراب ہورہی ہے کیونکہ ملک میں کوئی پانی کی پالیسی نہیں ہے جو قیمتی وسائل ضائع ہونے سے بچا سکے۔

نیئر بخاری نے پلاننگ ڈویژن کو ہدایت کی کہ قابل عمل منصوبوں پر شراکت قائم کریں تاکہ پانی سے متعلق مسائل حل کرنے کے لیے فورم کردار ادا کرسکے۔

اس موقع پر وزیر اعظم کے معاون خصوصی ہارون اختر نے تجویز دی کہ پلاننگ ڈویژن کو آزادانہ طور پر کام کرنے کا اختیار ہونا چاہیے جبکہ سابق سینیٹر افراسیب خٹک نے تجویز دی کہ ملک میں چھوٹے ڈیم تعمیر کیے جائیں۔

سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ اس وقت یہ مسئلہ صرف زراعت کو متاثر کر رہا ہے لیکن اس میں مسلسل کمی کے پیش نظر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فروری تک پانی کے اہم ذخائر خشک ہونے کا خدشہ

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت 2 کروڑ 20 لاکھ کیوبک فٹ پانی پاکستان میں ضائع ہورہا ہے جبکہ ہر فروی میں ڈیمز میں پانی کی سطح خطرناک حد تک کم ہوجاتی ہے، اس کے علاوہ ملک کا 86 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے پاس بڑے ڈیموں کی تعمیر کے لیے فنڈز نہیں ہے جبکہ جب بھی کوئی ڈیم شروع کرنے کی تجویز آتی ہے تو وہ نہ صرف تنقید کی جاتی ہے بلکہ ایک اور ڈیم کا مطالبہ کردیا جاتا ہے، جس سے تمام فنڈز ضائع ہوجاتے ہیں۔


یہ خبر 19 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں