کراچی میں وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ محسود کو مبینہ طور پر جعلی مقابلے میں ہلاکت میں ملوث ہونے پر معطل ملیر کے سابق ایس ایس پی راؤ انوار نے معاملے کی تفتیش کرنے والی انکوائری ٹیم کے دو اراکین کو ان کے خلاف 'ذاتی طور جانب داری' کا الزام عائد کرتے ہوئے تفتیش کے بائیکاٹ کا فیصلہ کرلیا ہے۔

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے سابق ایس ایس پی راؤ انوار کا کہنا تھا کہ انھوں یہ فیصلہ اس لیے کیا کہ انکوائری ٹیم میں موجود دو اراکین مبینہ طور پر ان کے خلاف 'ذاتی طور پرجانب دار' ہیں اور انھیں واقعے کے حوالے سے پوچھے بغیرکیس میں ملوث کردیا ہے۔

راؤ انوار کو آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے احکامات پر معطل کردیا گیا تھا۔

انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس سندھ کے دفتر سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق راؤ انوار کی جگہ عدیل حسین چانڈیو کو ایس ایس پی ملیر تعینات کردیا گیا تھا۔

عدیل حسین چانڈیو ایس ایس پی سٹی کے عہدے پر تعینات تھے، تاہم ان کی جگہ ایس ایس پی کمبر اور شہداد کوٹ شیراز نظیر کو تعینات کردیا گیا جبکہ ایس ایس پی کراچی جنوبی ڈاکٹر اسد اعجاز ملہی کو ایس ایس پی کمبر اور شہداد کوٹ تعینات کردیا گیا۔

خیال رہے کہ کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں 13 جنوری کو وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ محسود کو راؤ انوار کی سربراہی میں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیا گیا تھا جس کی تفتیش کے لیے پولیس کی انکوائری ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:نقیب اللہ کو ’جعلی انکاؤنٹر‘ میں مارا گیا، تحقیقاتی کمیٹی کا انکشاف

راؤ انوار کو اتوار کی رات گیارہ بجے انکوائری ٹیم کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی گئی تھی تاہم وہ پیش نہیں ہوئے۔

راؤ انوار سے رابطہ نہ ہوسکا

بعد ازاں ڈی آئی جی ایسٹ سلطان خواجہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج راؤانواراوران کی ٹیم کوبلایا تھا مگروہ پیش نہیں ہوئے جبکہ ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان کا موبائل بند تھا۔

ڈی آئی جی ایسٹ نے کہا کہ انکوائری کمیٹی راؤانوارکوسنناچاہتی ہے کیونکہ راؤانوارکوموقع دیناچاہتےتھے،اگران کےپاس ثبوت ہیں توپیش کریں۔

انھوں نے کہا کہ ہمیں شفاف تحقیقات کرنی ہیں اور ہم پرکسی بھی ادارے کادباؤ نہیں۔

سلطان خواجہ نے کہا کہ اگر ہم پراعتبارنہیں تو راؤانوار ہیومن رائٹس کمیشن کےسامنے پیش ہوجائیں۔

راؤانوار پر ہونے والے خود کش حملے پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے ڈی آئی جی ایسٹ نے کہا کہ خودکش حملہ آورجلتانہیں ہے اس لیے راؤانوار پر ہونے والا خودکش حملہ مشکوک لگتا ہے اور اس خود کش حملے کی تفتیش کریں گے۔

قبل ازیں راؤ انوار نے دعویٰ کیا تھا کہ جب وہ پولیس پارٹی کے ہمرا انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے اس وقت انھوں نے 'مکمل تعاون کیا تھا' تاہم بعد ازاں مجھے کہا گیا کہ ایک اور سیشن ڈی آئی جی ایسٹ کے دفتر میں جمعے کی نماز کے بعد ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ جمعے کی نماز کے بعد ڈی آئی جی ایسٹ کے دفتر میں چار مرتبہ رابطہ کیا لیکن انھیں کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔

دوسری جانب ملیر کے ایس پی انوسٹی گیشن عابد قائم خانی نے راؤ انوار کے اس دعوے کو مسترد کردیا جس میں انھوں کہا تھا کہ ڈی آئی جی ایسٹ کے دفتر سے رابطے کے لیے چار مرتبہ کوشش کی لیکن انھیں ملاقات کے لیے نہیں بلایا گیا۔

ایس پی انوسٹی گیشن عابد قائم خانی نے ایک اور نوٹی فیکیشن میں ایس ایس پی راؤ انوار اور سابق ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن ایس آئی امان اللہ کو پیر کو اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے لیے پیش ہونے کی ہدایت کی۔

'میرا اس معاملے سے تعلق نہیں'

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے راؤ انوار نے کہا کہ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ یہ مقابلہ 'جعلی' تھا تو بھی 'میرا اس سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ یہ مقابلہ میں نے تیار نہیں کیا تھا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'نقیب کو نہ تو میں نے گرفتار کیا تھا اور نہ ہی میں نے تفتیش کی تھی'۔

سابق ایس ایس پی ملیر نے انکشاف کیا کہ وہ انکوائری کمیٹی کو پہلے ہی دو پولیس فسران کے نام دے چکے ہیں جن کے نام علی اکبر اور فیصل ہیں جنھوں نے نقیب کو حراست میں لیا اور انھیں دہشت گرد کے طور پر پیش کیا اور انھیں دیگر تین اصلی دہشت گردوں کے ساتھ مار دیا۔

راؤ انوار نے کہا کہ انھوں نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا تھا تاکہ پولیس پارٹی کا مورال بلند کیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ 'میں عام طور پر مقابلے کے بعد میڈیا سے صرف اس لیے بات کرتا ہوں تاکہ پولیس پارٹی کے بجائے میں خود سیکیورٹی رسک لوں'۔

پولیس پارٹی کی جانب سے انھیں غلط معلومات پہنچانے کا شبہ ظاہر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'ہوسکتا ہے پولیس پارٹی کی جانب سے مجھے غلط رہنمائی دی گئی ہو'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں