متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) لندن کے ڈپٹی کنوینئر اور پروفیسر حسن ظفر عارف کی موت کی کیمیائی تجزیاتی رپورٹ جاری کردی گئی، جس میں مرحوم کی غیر طبعی موت کے کوئی شواہد نہیں ملے۔

ابتدائی رپورٹ کے مطابق پروفیسر حسن ظفر عارف کی موت طبعی تھی اور کیمیائی تجزیے میں زہر خورانی کے بھی کوئی شواہد نہیں ملے۔

مرحوم کے کیمیائی تجزیے میں جسم کے مختلف اعضاء کا معائنہ کیا گیا لیکن جسم پر کسی قسم کے تشدد کے کوئی نشان نہیں ملے، جس کی بعد کیمیائی تجزیاتی رپورٹ کی بنیاد پر اب ان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ تیاری کی جائے گی۔

خیال رہے کہ 14 جنوری 2018 کو کراچی پولیس نے ابراہیم حیدری کے علاقے ریڑھی گوٹھ سے پروفیسر حسن ظفر عارف کی لاش ایک گاڑی سے برآمد کی تھی۔

مزید پڑھیں: ایم کیو ایم لندن کے رہنما حسن ظفر عارف کی پراسرار ہلاکت

بعد ازاں جناح ہسپتال میں شعبہ حادثات کی انچارج ڈاکٹر سیمی جمالی نے کہا تھا کہ لاش پر کسی قسم کے تشدد کے نشانات موجود نہیں۔

سیمی جمالی نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ موت طبعی ہو سکتی کیوں کہ جسم پر زخم کا کوئی نشان نہیں تاہم پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد ہی وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ مقتول کو قتل کیا گیا یا ان کی طبعی موت ہوئی۔

سیمی جمالی کا کہنا تھا کہ حسن ظفر عارف کو جب ہسپتال منتقل کیا گیا تو وہ مردہ حالت میں تھے۔

یاد رہے کہ حسن ظفر عارف سیاسی منظر نامے پر اس وقت ابھر کر سامنے آئے تھے جب 22 اگست 2016 کو بانی ایم کیو ایم الطاف حسین نے کراچی اور امریکا میں کارکنان سے ٹیلی فونک خطاب میں پاکستان مخالف نعرے لگائے تھے جبکہ پاک فوج سے لڑنے کا بھی اعلان کیا تھا۔

جس پر 23 اگست کو ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے اپنے ہی بانی اور قائد الطاف حسین سے اعلان لاتعلقی کیا تھا۔

بعدازاں ایم کیو ایم لندن نے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں ڈاکٹر فاروق ستار، عامر خان، خواجہ اظہار الحسن، فیصل سبزواری اور کشور زہرا کی پارٹی کی بنیادی رکنیت خارج کردی تھی۔

ایم کیو ایم لندن نے ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی کو مسترد کرتے ہوئے ایک نئی رابطہ کمیٹی کا اعلان کیا تھا جس میں حسن ظفر عارف کا مرکزی کردار تھا۔

22اکتوبر 2016 کو ایم کیو ایم لندن کی جانب سے کراچی پریس کلب (کے پی سی) پر پریس کانفرنس سے قبل ہی حسن ظفر عارف کو اس وقت رینجرز نے گرفتار کیا جب وہ کراچی پریس کلب کے باہر ایک موٹر سائیکل پر بیٹھے ہوئے تھے، تاہم انسداد دہشت گردی عدالت 18 اپریل 2017 کو حسن ظفر کو ایک لاکھ روپے ضمانت کے عوض رہائی کرنے کا حکم دیا تھا۔

حسن ظفر عارف کے تعزیتی اجلاس میں شریک صحافی اغوا کے بعد رہا

واضح رہے کہ گزشتہ روز جامعہ کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ لندن کے مرحوم رہنما ڈاکٹر حسن ظفر کے تعزیتی اجلاس میں شریک صحافی فواد حسن کو 'سادہ لباس افراد' نے اٹھا لیا تھا تاہم ایک گھنٹے بعد رہا کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی:'سادہ لباس افراد' کے ہاتھوں اغوا صحافی پوچھ گچھ کے بعد رہا

انگزیری اخبار ایکسپریس ٹریبیون کے صحافی فواد حسن کو گزشتہ روز اٹھایا گیا تھا لیکن فواد حسن نے پوچھ گچھ کے حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا تاہم دیگر صحافیوں کی جانب سے اس معاملے پر کچھ تفصیلات دی گئی تھیں۔

ایک مقامی صحافی نے ٹوئٹر میں اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ' انہوں نے فواد حسن کو تشدد کے بعد رہا کردیا اور اس طرح کے سمینارز کی کوریج نہ کرنے کی دھمکی دی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'انہوں ںے یہ بھی کہا کہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں ان کے فون کال کو ریکارڈ کررہی ہیں اور اگر انہوں نے تفتیش کے حوالے سے کچھ کہا تو وہ انہیں دوبارہ اٹھائیں گی'۔

تبصرے (0) بند ہیں