سپریم کورٹ میں زینب قتل از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ملزم عمران کی سیکیورٹی یقینی بنانے کی ہدایت کردی۔

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی، جہاں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب عاصمہ حیدر پیش ہوئیں جبکہ عدالت کے بلانے پر نجی ٹی وی کے اینکر پرسن ڈاکٹر شاہد مسعود بھی پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز میں ڈاکٹر شاہد مسعود نے عدالت کو بتایا کہ ملزم عمران کوئی پاگل یا بیوقوف شخص نہیں بلکہ بین الاقوامی گروہ کا حصہ ہے جبکہ اس کے 37 غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس بھی موجود ہیں۔

مزید پڑھیں: زینب قتل کا ملزم 14 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

خیال رہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنے پروگرام میں انکشاف کیا تھا کہ زینب کا ملزم غیر اخلاقی فلموں کے مافیا گینگ کا حصہ ہے اور اس گینگ میں مبینہ طور پر پنجاب کے ایک وزیر بھی شامل ہیں۔

ڈاکٹر شاہد مسعود نے عدالت میں پیشی کے دوران بتایا تھا کہ وفاقی وزیر اور ایک اور ملک کی ایک اعلیٰ شخصیت اس مافیا کی پشت پناہی کر رہے ہیں جبکہ ملزم کے دوران حراست قتل کیے جانے کے بھی امکانات ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں اس واقعے پر بات ہوری ہے، پولیس کی حراست کے بجائے ملزم کو کسی حساس ادارے کی تحویل میں دیا جائے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملزم عمران کی سیکیورٹی بہت اہم ہے، پولیس حراست میں ملزم کی سیکیورٹی کی ذمہ داری انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب کی ہوگی جبکہ جوڈیشل ریمانڈ پر یہ فرائض آئی جی جیل خانہ جات نے نبھانے ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: زینب قتل کیس: عدالت میں ڈی جی فرانزک اور پولیس کی رپورٹ پیش

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب عاصمہ حامد نے سماعت کے دوران عدالت کو بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے اینکر پرسن کے انکشافات کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔

اس موقع پر عدالت نے ڈاکٹر شاہد مسعود سے نئے شواہد کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ عدالت کو اعلیٰ شخصیات کے نام تحریری طور پر دیں، انہیں تحقیقات مکمل ہونے تک صیغہ راز میں رکھا جائے گا‘۔

اینکر پرسن شاہد مسعود نے ملزم کے 37 بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات جمع کراتے ہوئے ایک پرچی پر ان شخصیات کا نام لکھ کر چیف جسٹس کو دے دیے۔

سماعت کے دوران عدالت میں نجی ٹی وی چینل کے پروگرام کی فوٹیج بھی چلوائی گئی اور پروگرام کے اندر دیے گئے مزید حقائق پر تحقیقات کرنے کی ہدایت کی گئی۔

مزید پڑھیں: جیکٹ کے دو بٹن زینب کے قاتل کی گرفتاری میں معاون

سپریم کورٹ نے آئی جی پنجاب اور زینب قتل کیس کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو حکم دیا کہ وہ نجی ٹی وی اینکر کے شواہد سے متعلق تحقیقات کریں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر اینکر پرسن کے یہ الزامات غلط ثابت ہوئے تو پھر اچھا نہیں ہوگا۔

بعدِ ازاں عدالت نے اس کیس کی سماعت پیر (29 جنوری) تک ملتوی کردی۔

قصور میں 6 سالہ زینب کا قتل

صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری کو 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔

جس وقت زینب کو اغوا کیا گیا اس وقت ان کے والدین عمرے کی ادائیگی کے سلسلے میں سعودی عرب میں تھے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے زینب کے اغوا سے متعلق مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔

5 روز بعد 9 جنوری کو ضلع قصور میں شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تو ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔

بعد ازاں پولیس کی جانب سے بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا تھا، جس کے بعد لاش کو ورثا کے حوالے کردیا گیا تھا تاہم یہ بھی اطلاعات تھی کہ بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ’شہباز شریف کی پریس کانفرنس میں شرکاء نے ہمارے آنسوؤں پر تالیاں بجائیں‘

بچی کی لاش ملنے کے بعد قصور میں پُر تشدد مظاہروں کا آغاز ہوا اور میں شدت اس وقت دیکھنے میں آئی جب اہلِ علاقہ نے مشتعل ہو کر ڈی پی او آفس پر دھاوا بول دیا اور دروازہ توڑ کر دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔

اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی تھی جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

10 جنوری کو بچی کے والدین عمرے کی ادائیگی کے بعد پاکستان پہنچے اور انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے ننھی زینب کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی تھی۔

بعد ازاں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے گھر کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندان سے ملاقات کر کے مجرموں کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی تھی۔

خیال رہے کہ 23 جنوری کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے والد کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ زینب کے قاتل کو گرفتار کرلیا گیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز (24 جنوری کو) ملزم عمران کو لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جسے عدالت نے 14 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں