کراچی : ڈپٹی انسپیکٹر جنرل (ڈی آئی جی) انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) عامر فاروقی نے انتظار قتل کیس کے معاملے کو پولیس کی ناکامی قرار دیتے ہوئے معاملے پر جے آئی ٹی تشکیل دینے کی سفارش کردی۔

ان کا کہنا تھا کہ واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں کی ناکامی ثابت ہوئی ہے، پولیس نے شدید غفلت کا مظاہرہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس پارٹی نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی اور واقعے میں استعمال گاڑیاں بھی پولیس افسران کی ذاتی تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ انتظار کی گاڑی کو روکنے کی بات نے کئی شبہات پیدا کیے ہیں اور گاڑی روکنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے انتظار کو اغوا کیا جارہا تھا۔

مزید پڑھیں: انتظار قتل کیس: گرفتار ملزمان کے جسمانی ریمانڈ میں 27 جنوری تک کی توسیع

ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ تمام تر کاروائی جلد بازی اور لاپرواہی میں کی گئی جس سے انتظار کی موت واقع ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ناکے پر کھڑے پولیس اہلکاروں میں سے کچھ اہلکاروں کو وردی میں ہونا چاہیے تھا۔

انہوں نے بتایا کہ سادہ کپڑوں میں ایسا لگا جیسے سارے ڈاکو ہیں اسلیے انتظار گھبرا گیا تھا۔

ڈی آئی جی عامر فاروقی نے تحقیات میں شفافیت کے لئے جے آئی ٹی تشکیل دینے کے حوالے سے کہا کہ جے آئی ٹی تشکیل دینے کی سفارش انتظار کے لواحقین سے مشاورت کے بعد کی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کے تشکیل دینے سے ایس ایس پی مقدس حیدر سمیت دیگر ہولیس افسران اور اہلکاروں کا واقعے میں کردار مزید واضع ہوجائے گا۔

انتظار قتل کیس میں کب کیا ہوا؟

ڈیفنس کے علاقے خیابان اتحاد میں ہفتہ 13 جنوری 2018 کی شب کو اے سی ایل سی اہلکاروں کی جانب سے ایک گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا گیا تھا، جس کے نہ رکنے پر اہلکاروں نے فائرنگ کی تھی، جس سے 19 سالہ نوجوان انتظار احمد جاں بحق ہوگیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈیفنس میں نوجوان کا قتل: اینٹی کار لفٹنگ سیل کے اہلکار گرفتار

ابتدائی طور پر پولیس کی جانب سے اس واقعے کو دہشتگری کا واقعہ قرار دیا جارہا تھا، تاہم بعد ازاں درخشاں تھانے میں اس کا مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔

اس واقعے کے بعد مقتول انتظار کے والد اشتیاق احمد کی جانب سے چیف جسٹس اور آرمی چیف سے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی گئی تھی جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ملوث اہلکاروں کی گرفتاری کا حکم دیا تھا۔

14 جنوری کو اس کیس میں 6 اے سی ایل سی اہلکاروں کو حراست میں لیا تھا، جس میں 2 انسپکٹر، 2 ہیڈ کانسٹیبل اور 2 افسران بھی شامل تھے۔

15 جنوری کو ان ملزمان کو کراچی کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں عدالت نے ملزمان کو 7 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: انتظار قتل کیس: مفرور ملزم کی درخواست ضمانت منظور

بعد ازاں انتظار احمد کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی سامنے آئی تھی، جس میں معلوم ہوا تھا کہ نوجوان کی ہلاکت صرف ایک گولی لگنے سے ہوئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اے سی ایل سی اہلکاروں نے انتظار پر 17 سے زائد گولیاں چلائیں جبکہ مقتول انتظار کو سیدھے کان کے پیچھے ایک گولی لگی جو اس کے سر سے آر پار ہوگئی تھی جس کے بعد وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا تھا۔

علاوہ ازیں مقتول انتظار کی ابتدائی فارنزک رپورٹ جاری کی گئی تھی، جس کے مطابق انتظار پر 2 پستول سے 18 گولیاں فائر کی گئیں تھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں