قصور: ریپ کے بعد قتل کی گئی 6 سالہ زینب کے والد نے دعویٰ کیا کہ تحقیقاتی ادارے عمران کو ڈھونڈنے میں ناکام رہے تھے اور انہوں نے اپنے رشتہ داروں کی مدد سے مشتبہ قاتل کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا تھا۔

جمعرات کو وکیل آفتاب احمد باجوہ کے ہمراہ روڈ کوٹ میں پریس کانفرنس کے دوران زینب کے والد محمد امین نے یہ دعویٰ کیا، جبکہ اپنے اسی دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لیے انہوں نے مشتبہ ملزم کی وہ تصویر بھی دکھائی جس میں ملزم صوفے پر بیٹھا دکھائی دے رہا ہے۔

مقتولہ کے والد کے مطابق ملزم کی یہ تصویر ان کے بھائی کے گھر کی ہے جہاں لانے کے بعد اسے پولیس کے حوالے کیا گیا۔

صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 5 جنوری کو زینب کے غائب ہونے کے بعد سے ہم اصرار کر رہے تھے کہ عمران ہی مجرم ہے لیکن پولیس ہماری نظر انداز کرتی رہی۔

مزید دیکھیں: زینب کے قاتل کو اصل میں کس نے پکڑا؟

محمد امین نے کہا کہ لاہور میں وزیرِاعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ہمراہ پریس کانفرنس سے قبل وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے ان سے کہا کہ وہ انصاف کے علاوہ کسی اور چیز کا مطالبہ نہ کریں۔

محمد امین نے بتایا کہ انہوں نے اور ان کے اہل خانہ نے عمران کو دو مرتبہ پکڑا لیکن پولیس نے اسے رہا کردیا۔

مقتولہ زینب کے والد نے دعویٰ کیا کہ اس کے بعد ہم نے انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس اور جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے سربراہ کو کہا کہ وہ مشتبہ ملزم کو گرفتار کریں اور پھر ہم نے اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جس سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزم کو دیکھا گیا، وہ بھی زینب کے رشتے داروں نے ہی حاصل کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: زینب قتل کیس: 'تالیوں کے بجائے افسوس کی ضرورت تھی'

وکیل آفتاب باجوہ نے وزیرِاعلیٰ کی جانب سے ملزمان کی گرفتاری پر جے آئی ٹی ارکان کے لیے ایک کروڑ روپے انعام کے اعلان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اصل میں تو ملزم کو زینب کے اہل خانہ نے گرفتار کرایا تھا۔

انہوں نے کہا کہ محمد امین وزیرِاعلیٰ کی پریس کانفرنس میں متعدد مطالبات کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے مائیک بند کر دیئے گئے تھے۔

اس سے قبل ایک اور پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے محمد امین نے زینب اور قصور کے دیگر متاثرین کے لیے بنائی گئی ایکشن کمیٹی سے 11 مطالبات کیے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ اگر حکومت نے زینب کے اہل خانہ کی کسی بھی قسم کی مالی مدد کی یا اگر اہل خانہ نے انصاف کے علاوہ کسی اور چیز کا مطالبہ کیا ہے تو اسے عوام کے سامنے لایا جائے۔

مزید پڑھیں: جیکٹ کے دو بٹن زینب کے قاتل کی گرفتاری میں معاون

انہوں نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کو بھی عوام کے سامنے لانے کا مطالبہ کیا۔

محمد امین نے شفاف تحقیقات اور مجرم کی سرعام پھانسی کے ساتھ ساتھ دیگر متاثرین کے لیے انصاف، کچھ جامعات یا بچوں کے پارک کے نام زینب کے نام پر کرنے، ضلع میں ایماندار اور پیشہ ورانہ پولیس افسران کی تقرری اور مستقبل میں اس طرح کے حادثات سے بچاؤ کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ مقامی رکن اسمبلی کو کہا جائے کہ وہ تمام متاثرہ افراد کے اہل خانہ کو ریلیف فراہم کریں تاکہ مستقبل میں امن و امان کی خراب صورتحال سے بچا جا سکے۔

اس موقع پر محمد امین نے دھمکی بھی دی کہ اگر پولیس نے بقیہ مشتبہ افراد کو رہا نہ کیا تو وہ جمعے کو احتجاجی دھرنا دیں گے اور اس وقت تک تحقیقات کا حصہ نہیں بنیں گے جب تک دیگر مشتبہ افراد کو رہا نہیں کیا جاتا۔

یہ بھی پڑھیں: زینب قتل کا ملزم 14 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

واضح رہے کہ عمران کی گرفتاری کے بعد پولیس نے مقدمے میں سہولت کار کا کردار ادا کرنے کے الزام میں قاری سہیل احمد سمیت مزید چار مشتبہ افراد کو گرفتار کیا تھا۔

تاہم دوسری جانب ڈی پی او قصور کے ترجمان محمد ساجد نے مقامی میڈیا کو واٹس ایپ کے ذریعے آگاہ کیا کہ پولیس کی حراست میں کوئی بھی مشتبہ فرد نہیں۔

رات گئے ہونے والی پیشرفت کے مطابق پولیس نے قاری سہیل احمد کو رہا کردیا تھا جنہوں نے بعد میں رپورٹرز کو بتایا کہ پولیس نے دوران حراست ان کے موبائل فون ڈیٹا اور کال ریکارڈ کا معائنہ کیا اور مشتبہ ملزم سے ان کے تعلقات کے بارے میں بھی پوچھ گچھ کی۔


یہ خبر 26 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (2) بند ہیں

Anwer Jan 26, 2018 05:41pm
زینب کا باپ مستقل میڈیا پر آتا رہا ہے حکمران بڑے بڑے لیڈر سلیبریٹی اخباری نمایندے سب اس سے ملتے رہے کیسے ممکن تھا کہ پولیس اس کی بات نہ سنتی
KHAN Jan 27, 2018 06:39pm
عام آدمی تھانے چلا جائے تو پتہ چل جائے گا کہ وہاں کس کی بات سنی جاتی ہے ، زینب کے والد کی بات شہباز شریف نے سب کے سامنے بند کرادی۔