کراچی: عالمی اقتصادی فورم میں شرکت کے لیے ڈیووس میں موجود پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھارتی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کی فوج کا بھارت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں لیکن پاکستان کی ریاست کے مابین تعلقات ہیں‘۔

بھارتی اخبار انڈیا ٹو ڈے کے صحافی کو انہوں نے دو ٹوک جواب دیا کہ ’میرا یا میرے ملک کا یہ مقصد نہیں کہ اپنی فوج پر تنقید کروں جبکہ وہ دہشت گردوں کے خلاف مختلف محاذوں پر لڑائی میں مصروف ہیں‘۔

یہ پڑھیں:گجرات فسادات: 24 انتہا پسند مجرم قرار

پہلی مرتبہ بھارتی ذرائع ابلاغ کو دیئے گئے انٹرویو میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پاک بھارت کے مابین تعلقات اور دیگر امور اپنی صحیح سمت میں نہیں ہیں تاہم امید ہے کہ مستقبل قریب میں ساز گار حالات ضرور سامنے آئیں گے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ’دونوں جانب محاذ آرائی اور جائز شکایات موجود ہونے کے باوجود پاکستان اور بھارت کے نوجوان امن کو واحد حل سمجھتے ہیں اور اسی میں سے ہمیں بھی راستہ نکالنا ہے‘۔

پی پی پی کے چیئرمین نے واضح کیا کہ جب تک بھارت اور دیگر ممالک پاکستان کو حکم دینا بن نہیں کریں گے تب تک حالات سازگار نہیں ہو سکتے، شراکت داری کے معاملات ایسے بڑھتے اور نہ ہی چلتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’بھارت کو پاکستان کے تحفظات تسلی سے سنا ہوں گے اور یقیناً بھارت کے بھی پاکستان کے حوالے کچھ تحفظات ہوں گے لیکن مذاکرات ہی کے ذریعے مسائل نمٹائے جا سکیں گے‘۔

یہ بھی پڑھیں : امریکا نے پاکستان کیلئے 25 کروڑ ڈالر سے زائد عسکری امداد روک دی

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ’دونوں ممالک کے مابین مذاکرات بند کمرے میں ہوتے ہیں تاہم ایسے مذاکرات آن کیمرا اور عوام کے سامنے ہونے چاہیے‘۔

پاکستان میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے لیے نفرت کے بارے میں کہا کہ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے وقت نریندر مودی وزیراعلیٰ تھے، اس لیے پاکستان کے شہری انہیں پسند نہیں کرتے۔

مسئلہ کشمیر پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ ’سوشل میڈیا کے دور میں کشمیر کے دونوں اطراف واقعات کو پوشیدہ نہیں رکھ سکتے اور سوشل میڈیا پر کشمیروں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں دیکھنے سے حالات مزید پچیدہ ہو جاتے ہیں‘۔

اسلام کا شدت پسندی سے کوئی تعلق نہیں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیان کے بارے میں ایک سوال پر بلاول بھٹو زرداری نے جواب دیا کہ ‘کولیشن سپورٹ فنڈز (سی ایس ایف) امداد نہیں ہے، یہ رقم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی محنت کا معاوضہ ہے‘۔

دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے موثر مذاکرات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’پرتشدد انتہا پسندی کے خلاف موثر حکمت عملی پر مذاکرات بھی نہیں کررہے ہیں‘۔

انتہا پسندی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، دنیا بھر میں انتہا پسندی کے رحجان بڑھ رہے ہیں، میانمار، بھارت، امریکا اور پاکستان میں بھی یہ موجود ہیں، ہمیں دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ انتہا پسندی کو شکست دینے کے لیے مذاکرات کا عمل شروع کرنا ہوگا۔

نفرت کے جذبات بھڑکانے والی سیاست

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے شہرت سے متعلق سوال پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ’بدقسمتی سے بعض (بی جے پی) کے سیاستدان شہرت کے لیے نفرت انگیز تقاریر کرکے لوگوں میں منفی رحجانات کو جنم دے رہے ہیں، مذہب اور لسانی بنیادوں پر قائم کمیونٹی کو تقسیم کیا جارہا ہے اور ایسا عمل کسی بھی ملک، پاکستان یا بھارت کے لیے بھی مثبت نہیں ہوسکتے۔

***مزید پڑھیں: گجرات مسلم کش فسادات پر مودی امریکی عدالت میں طلب*

نریندر مودی کی انتخابات میں کامیابی سے ملنے والی شہرت کے بارے میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ’کامیابی کیا ہے، وہ جو الیکشن سے ملے یا جو ٹھیک کام کرکے ملے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت کی تاریخ میں اصل جیت کا فیصلہ ہوگا جب بھارتی تاریخ کی کتابوں میں تحریر ہوگا کہ کس نے کس وقت کیا عمل کیا‘۔

انہوں نے پاکستان میں انتہا پسندی کے تدارک سے متعلق کہا کہ ’ہم ناانصافی، عورتوں سے نفرت، تقریق اور نفرت آمیز رویہ ہرگز برداشت نہیں کر سکتے اور جب یہ تمام چیز برداشت کے قابل نہیں ہوں گی تو ہمارے درمیان شدت پسندی کی ہرگز گنجائش نہیں ہوگی۔


یہ خبر 28 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں