اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے سینیٹ انتخابات کی تاریخ کا حتمی اعلان منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی ) نے 9 اراکین پر مشتمل پارلیمانی بورڈ تشکیل دے دیا ہے جو سینیٹ کی نشستوں کے لیے امیدواروں کا انتخاب کرے گا دوسری جانب حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے انتخابی مہم کے سلسلے میں پارٹی قائدین سے مشاورت کے لیے اجلاس منعقد کیا۔

مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے مابین بلوچستان کی سینیٹ نشستوں پر محاذ آرائی کا سلسلہ تیز ہو چکا ہے جہاں پیپلز پارٹی بلوچستان میں سینیٹ کی 6 نشستیں حاصل کرنے کے لیے پُرامید ہے۔

تاہم مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری اطلاعات مشاہداللہ خان نے کہا کہ پارٹی رہنماؤں نے بلوچستان میں ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک التوا کے کیس میں پی پی پی کے کردار پر سخت ‘مذمت’ کی اور امید ظاہر کی کہ مسلم لیگ (ن) بلوچستان میں سینیٹ کی 3 نشستیں حاصل کرلے گی۔

یہ پڑھیں: سینیٹ انتخابات 3 مارچ کو متوقع

پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے گزشتہ روز وزیراعلیٰ ہاؤس سندھ میں ایک اجلاس کی صدارت کی تھی جس میں بلوچستان کے نو منتخب وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو اور ان کی کابینہ کے اراکین نے بھی شرکت کی تھی۔

مذکورہ اجلاس کو ناصرف سینیٹ انتخابات کی مہم کا آغاز سمجھا جا رہا ہے بلکہ بلوچستان کی صوبائی سیاست کے تناظر میں انتہائی اہم پیش رفت بھی سمجھی جارہی ہے۔

پارلیمانی بورڈ میں سابق صدر آصف علی زرداری، پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زاردی، پارٹی رہنما فریال تالپور، سید قائم علی شاہ، راجہ پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی، فرحت اللہ بابر، نیربخاری اور صابر بلوچ شامل ہیں۔

واضح رہے کہ پی پی پی نے سینیٹ انتخابات کے لیے پارٹی ٹکٹ کے خواہش مند امیدواروں سے درخواستیں پہلے ہی وصول کرلی تھیں تاہم 30 جنوری کو کاغذات جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی دوسری جانب مسلم لیگ (ن) نے سینیٹ کے لیے کاغذات نامزدگی کی آخری تاریخ 3 فروری مقرر کی۔

یہ بھی پڑھیں: ’سینیٹ انتخابات وقت پر ہونا مشکل‘

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور سینیٹ چیئرمین رضا ربانی، اپوزیشن لیڈر چوہدری اعتزاز احسن، پارلیمانی رہنما تاج حیدر، پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر سمیت 18 ارکان کی مدت مارچ میں مکمل ہو رہی ہے جبکہ پی پی پی کے سینٹرز کی مجموعی تعداد 26 ہے۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ سینیٹ چیئرمین رضا ربانی اور تاج حیدر نے بھی سینیٹ کی نشستوں کے لیے اپنی درخواستیں جمع کرائی ہیں جبکہ دیگر امیدواروں میں راشد ربانی، وقار مہدی، حنا دستگیر، حمیرا علوانی، نعمان شیخ، مولا بخش چانڈیو، جاوید نایاب لغاری، عبدالقیوم سومرو اور ہری رام شامل ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما مشاہداللہ خان نے بتایا کہ پارٹی سینیٹ انتخابات میں بلوچستان کی 3 نشستوں پر کامیابی کے لیے پُر امید ہے تاہم عبدالقادر بلوچ، سردار یعقوب ناصر اور فضل مندوخیل پر مشتمل تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جو صوبے میں انتخابی سرگرمیوں کا جائزہ لے گی اور پارٹی کی فتح کے لیے اپنا کردار ادا کرے گی۔

پی پی پی کے بلوچستان میں صوبائی صدر علی مدد جتک نے 30 جنوری کو پریس کانفرس کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ ‘مارچ میں منعقد سینیٹ انتخابات میں ہمارا ہدف 6 نشستوں کا حصول ہے’۔

مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ بلوچستان نے وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کو عہدے سے ہٹا دیا

اس ضمن میں خیال رہے کہ 2013 کے عام انتخابات میں بلوچستان سے پی پی پی کسی ایک حلقے میں بھی اپنی نشست حاصل نہیں کر سکی تھی تاہم یوسف بادینی نے بلوچستان کی سینیٹ نشست پر کامیاب ہونے کے بعد پی پی پی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔

خیال رہے کہ ان کے مرحوم والد علی محمد بادینی نے بھی سینیٹ کی نشست پر کامیابی کے بعد پیپلز پارٹی میں شمولیت کی تھی۔

مشاہد اللہ کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے ختم نبوت کے معاملے سے متعلق تین رکنی کمیٹی تشکیل دے دی جو فریقین سے مذاکرات کریں گے اور دو سے تین روز میں اپنی حتمی رپورٹ پیش کریں گے۔

واضح رہے کہ ای سی پی نے سینیٹ انتخابات سے متعلق کئی مہنیوں سے جاری قیاس آرائیوں کا قلع قمع کرتے ہوئے انتخابات 3 مارچ کو کرانے کا فیصلہ سنایا۔

ایوانِ بالا کی 104 میں سے 52 نشستوں پر انتخابات 3 مارچ 2018 کو معنقد ہوں گے تاہم سینیٹ انتخابات کا باقاعدہ اعلان 2 فروری کو کیا جائے گا۔

52 سینیٹرز اپنی 6 سالہ مدت پوری کرکے 11 مارچ کو ریٹائر ہو جائیں گے جبکہ 12 مارچ کو نئے سینیٹرز حلف اٹھاکر سینیٹر شپ کے حقدار بن جائیں گے۔

ایوانِ بالا 104 سینیٹرز پر مشتمل ہوتا ہے جس میں چاروں صوبوں سے مجموعی طور پر 92، وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) سے 8، اسلام آباد سے 4 نشستیں ہوتی ہیں۔

صوبے کی سطح پر کل 23 نشستیوں میں سے 14 جنرل، 4 خواتین جبکہ ایک اقلیت اور 4 ٹیکنوکریٹ کے لیے ہوتی ہیں۔

ایوان بالا میں سینیٹرز کی نشست 6 سال کی مدت پر محیط ہوتی ہے اور تقریباً ہر تیسرے سال 50 فیصد سینیٹرز ریٹائر ہوتے ہیں اور پھر خالی نشستوں پر نئے سینیٹرز کے لیے انتخابات کرائے جاتے ہیں۔


یہ خبر 31 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں