اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ غلطی کے بعد توبہ کا طریقہ بھی موجود ہے جس میں پہلے غلطی اور گناہ کا اعتراف کرنا ہوگا پھر عوام کے سامنے بددیانتی کا بھی اعتراف کرنا ہوگا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمرعطاء بندیال، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل پانچ رکنی بینچ آئین کے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نااہل قرار دینے کے معاملے پر آئینی و قانونی سوالات کا جائزہ لینے اور اس کی مدت کے تعین کے حوالے سے دائر 17 درخواستوں پر سماعت کی۔

سپریم کورٹ میں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران نہال ہاشمی کی نااہلی کا بھی تذکرہ ہوا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نااہل شخص کو پہلے غلطی اور گناہ کا اعتراف کرناہوگا، غلطی تسلیم کریں گے تو معافی ہوگی۔

مزید پڑھیں: مخدوم علی کا آرٹیکل 62 ون پر عدالت عظمیٰ کے معاون بنے سے انکار

سماعت کے آغاز میں ہی وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ میں بطور وکیل نہال ہاشمی کو سزا ہونے پر پریشان ہوں جس پر ہوں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نہال ہاشمی کیس کا فیصلہ قانون کے مطابق ہے آپ دلائل جاری رکھیں۔

چیف جسٹس نے ایک مرتبہ پھر استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی ایک ٹرم کے لیے ہوگی، نااہل شخص اگلا ضمنی الیکشن لڑ سکتا ہے جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ جب تک ڈکلیئریشن موجود رہے گا بد دیانتی بھی رہے گی۔

وکیل کامران مرتضی نے اپنے دلائل کے دوران کہا کہ ڈکلیئریشن کاغذات نامزدگی کے وقت کردار سے متعلق ہوگا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہی جائزہ لینا ہے ڈیکلریشن کااطلاق کب تک ہوگا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی کہے کہ اس کے ساتھ ظلم و زیادتی ہوئی ہے تو سب سے پہلے ڈیکلیئریشن کو تسلیم کیا جائے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ غلطی تسلیم کریں گے تو معافی ہوگی،غلطی کی معافی بھی پبلک ہونی چاہیے، جس نے توبہ کرنی ہمارے سامنے آئے۔

یہ بھی پڑھیں: آرٹیکل 62 ون ایف کے ذریعے ہمیشہ کی نا اہلی پر سپریم کورٹ فیصلہ کرے گی

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسحٰق خاکوانی والا فیصلہ نوازشریف کے حق میں ہوا، اگرآپ شرمندہ ہیں تو عدالتی فیصلہ قبول کریں، کنڈکٹ سے ثابت کرنا ہوگا بدیانتی ایمانداری میں تبدیل ہوگئی، طے یہ کرنا ہے نااہلی کی مدت کیا ہوگی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ امیدوار کاغلط بیانی کرنا ووٹرز سے غلط بیانی ہوتی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ سپریم ہے، پارلیمنٹ میں عوام کے منتخب نمائندے آتے ہیں، پاکستانی قوم ڈری ہوئی قوم نہیں اس لیے ان کے منتخب نمائندے ڈرپوک نہیں ہوسکتے۔

عدالت نے کیس کی سماعت 7 فروری تک ملتوی کردی جہاں سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ اور عدالتی معاون علی ظفر اپنے دلائل دینگے۔

یاد رہے کہ رواں ماہ 26 جنوری کو سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نا اہل ہونے والے اراکینِ پارلیمنٹ کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے سابق وزیرِاعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو منگل 30 جنوری کو ذاتی حیثیت میں یا وکیل کے ذریعے پیش ہونے کے نوٹسز جاری کیے تھے۔

سپریم کورٹ نے 31 جنوری کو ہونے والی سماعت میں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کے معاملے پر عوامی نوٹس جاری کردیا جس کے مطابق آرٹیکل 62 ون ایف متاثر شخص عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔

31 جنوری کو ہونے والی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کے معاملے پر سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل کو کیس میں تیاری کرنے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دے دی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں