قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) میں بچوں کے ساتھ جنسی ہراساں کرنے والے مجرمان کو عوامی سطح پر پھانسی دینے کے لیے قانون میں ترمیم کے معاملے کی مخالفت کردی۔

خیال رہے کہ اس ترمیم کا معاملہ قصور میں 6 سالہ بچی زینب امین کے ساتھ زیادتی اور قتل کے معاملے کے بعد سامنے آیا تھا۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کی جانب سے پیش کیے جانے والے ترمیمی بل کرمنل لاء امینڈمنٹ ایکٹ 2018 میں پاکستان پینل کوڈ ایکٹ 1860 کے سیکشن 364-اے (14 سال سے کم عمر کے بچوں کا اغوا اور قتل) کے حوالے سے بتاتا ہے۔

سیکشن 364- اے کے مطابق ' جس شخص نے 14 سال سے کم عمر افراد کو اغوا کیا اور اس کا قتل یا خواہشات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا تو ایسے شخص کو موت کی سزا دی جائے گی۔

سینیٹ کمیٹی کی جانب سے پیش کی گئی ترمیم میں اس قانون میں ایسے شخص کو عوامی سطح پر سزائے موت دینے کا کہا گیا تھا۔

خیال رہے کہ پیش کیے گئے ترمیمی بل کی سینیٹ کمیٹی کے کچھ اراکین کی جانب سے بھی مخالفت کی گئی تھی۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سینیٹ کمیٹی میں پیش کیے گئے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ سرعام پھانسی دینے کے تصور سے خوف آتا ہے، سابق آمر جنرل ضیاالحق نے ایک شخص کو لاہور میں سرعام پھانسی پر لٹکایا تھا اب ایک مرتبہ پھر ہمیں ضیا کے دور میں واپس نہیں جانا چاہیے۔

انھوں نے کہا تھا کہ قانون میں تبدیلی کردی تو پھر یہ سلسلہ نہیں رکے گا اور ہر ایک کو پھانسی پر لٹکانے کی آوازیں آئیں گی۔

قومی اسمبلی کی کمیٹی کے چیئرمین بابر نواز خان کا آج کہنا تھا کہ تجویز کی گئی ترمیم کی کمیٹی کی جانب سے مخالفت کردی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کسی آمر کا دور نہیں بلکہ ایک جہموری دور ہے اور جہموری دور میں کسی کو چوراہے پر نہیں لٹکایا جا سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ سرعام چوراہوں پر لٹکانے کے بجائے قانون سازی کی ضرورت ہے۔

یاد رہے کہ زینب قتل کیس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ساجد نواز نے ایک نجی ٹی وی پروگرام میں ملزموں کو پھانسی دینے کے مناظر میڈیا پر براہ راست دکھانے کا مطالبہ کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

احسن اقبال Feb 02, 2018 07:30am
اگر حادثہ کمیٹی کے کسی فرد و افراد کے ساتھ تو کیا وہ اس مخالفت پر قائم رہ سکیں گے۔ قصاص کے عمل میں مداخلت نامناسب اور خطرناک ہے۔