صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان کی ہلاکت کے معاملے پر مشتعل ہجوم نے مبینہ طور پر امن گروپ کے دفتر اور احاطے میں کھڑی دو گاڑیوں کو آگ لگا دی۔

مقتول کے لواحقین نے الزام لگایا کہ دو روز قبل مقتول کی محسود قبائل سے تعلق رکھنے والے ایک جنگجو رہنما کے ساتھ سڑک پر معمولی حادثے پر تکرار ہوئی تھی اور انہوں نے ادریس کو 4 فروری کو قتل کردیا۔

یہ پڑھیں: عمران خان کا محسود قبیلے کے مطالبات آرمی چیف تک پہنچانے کا وعدہ

ادریس کی ہلاکت کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک اور جنوبی وزیرستان میں احمد زئی وزیر قبائل کے افراد جمع ہوئے اور انہوں نے شہر کے وسط میں احتجاجی کیمپ بھی لگا لیا۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ مشتعل قبائلیوں نے بنو سڑک پر رکاوٹیں کھڑی کرکے تمام گاڑیوں کی نقل و حرکت روک دی اور الزام لگایا کہ حکومت کی حمایت یافتہ ’امن کمیٹی’ کے ممبران نے فائرنک کرکے ادریس کو قتل کیا جسے مقامی صنعت کار غازی خان کی حمایت بھی حاصل تھی۔

ذرائع نے بتایا کہ ادریس کی ہلاکت کے بعد وزیر کے قبائلی افراد نے لاش کو جی پی او چوک پر رکھ کر احتجاج کیا لیکن مقامی انتظامیہ کی جانب سے انصاف کی یقین دہانی پر ہجوم پرامن طور پر منتشر ہوگیا۔

گزشتہ روز ایک مرتبہ پھر مشتعل قبائلیوں نے مدینہ کالونی میں قائم ‘امن کمیٹی’ کے دفتر کے باہر جمع ہوئے اور انہوں نے دو کمپاؤنڈ اور احاطے میں کھڑی دو گاڑیوں کو آگ لگا دی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈیرہ اسماعیل خان:لڑکی پر تشدد کے الزام میں مزید 2 افراد گرفتار

دوسری جانب پولیس کا کہنا تھا کہ شیخ یوسف ڈاڈا کے علاقے میں معمولی تکرار پر ایک گروپ نے فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ایک نوجوان جاں بحق اور ایک زخمی ہوگیا تھا۔

کہا جارہا ہے کہ مقامی پولیس نے واقعے کے فوری بعد مقدمہ درج کرتے ہوئے 6 فروری کی صبح کو مرکزی ملزم شیر خان محسود کو گرفتار کرلیا تھا تاہم پولیس مزید ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی ہے۔

پولیس کے مطابق مشتعل ہجوم نے ہاتھ میں قانون لیتے ہوئے مخالف گروپ کے دفتر اور دیگر املاک کو نقصان پہنچایا، پولیس ان لوگوں کے خلاف بھی قانونی کارروائی کرے گی۔

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مشتعل افراد کا گروپ نعرہ لگاتا ہوا امن کمیٹی کے دفتر کے پاس پہنچا اور املاک کو آگ لگا دی۔

مزید پڑھیں: مردوں کے مقابلے میں خواتین ووٹرز کی تعداد میں واضح کمی

واضح رہے کہ ایک سال قبل رپورٹ سامنے آئی تھی کہ خیبرپختونخوا کے علاقے ڈیرہ اسماعیل خان اور ضلع ٹانک میں مبینہ طور پر جنگجوؤں نے اپنا دفتر کھولیا۔

اس ضمن میں کہا جارہا تھا کہ جنگجوؤں نے اپنی مذموم سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے ‘امن کمیٹی’ کے نام سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔


یہ خبر 07 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں