گزشتہ ہفتے جنسی زیادتی کی شکار ایک 17 سالہ لڑکی جنسی حملوں کا نشانہ بننے والے ان لوگوں میں سے بنی جن کی کہانی نے ہم سب کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑ دیا۔

قوتِ سماعت سے محروم لڑکی کو 2 سال قبل ملزم نے جنسی حملے کا نشانہ بنایا تھا، جس کے بعد سے وہ مفرور تھا۔

گزشتہ ہفتے ملزم بالآخر عبوری ضمانت کے لیے عدالت میں پیش ہوا تو لڑکی کے والد نے لڑکی کے شدید احتجاج کے باوجود اسے معاف کردیا۔ یہ وہی والد ہیں جو گرفتاری سے پہلے کہہ رہے تھے کہ انہوں نے واقعہ خود ہوتے ہوئے دیکھا ہے، لیکن بعد میں انہوں نے بیان بدلتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ مقدمہ انہوں نے غلطی سے دائر کردیا تھا۔

عدالت میں منظر نہایت دل شکن تھا، مگر ایک ایسا نظامِ انصاف، جو جنسی حملے کے متاثرین کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہتا ہے، اس نظام میں یہ سب معمول کی بات تھی۔

ایک ایسے ملک میں جہاں سول سوسائٹی کے مطابق روزانہ کم از کم 4 خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور زیادہ تر ضلعوں میں سزا کا تناسب تقریباً صفر ہے، وہاں اس بات میں حیرت نہیں کہ جنسی زیادتی کے مقدمات کی ایک واضح اکثریت کا ٹرائل مکمل ہونے سے قبل ہی تصفیہ ہوجاتا ہے۔

گزشتہ ہفتے ہونے والے واقعات کے نتیجے میں جنم لینے والی عوامی بے چینی کی وجہ یہ ہے کہ نظامِ انصاف ایک جرم کو 2 فریقوں کے درمیان ایک نجی مسئلہ قرار دیتا ہے جس کا تصفیہ ان کی مرضی سے ہوسکتا ہے۔

پڑھیے: زینب بیٹا، معاف کرنا، کیونکہ انصاف تو تمہیں بھی نہیں ملے گا!

لیکن یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جہاں کئی جرائم میں تصفیے کی گنجائش کا موجود ہونا استغاثہ میں موجود بنیادی خامی ہے، وہاں جنسی زیادتی کے مقدمات میں یہ بات صادق نہیں آتی، کیوں کہ تعزیراتِ پاکستان 1860ء کی دفعہ 367 کے تحت جنسی زیادتی ناقابلِ تصفیہ جرم ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ درخواست گزار اور ملزم کے درمیان چاہے جس بھی قسم کا سمجھوتا یا تصفیہ ہوجائے، ریاست پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس معاملے کو اس کے انجام تک پہنچائے۔

2012ء میں راولپنڈی میں ایک 13 سالہ بچی کے ساتھ ظالمانہ اجتماعی زیادتی کے واقعے نے اس جانب توجہ دلائی تھی کہ ملزمان کے بَری ہوجانے کی بڑی وجہ عدالت سے باہر فریقین میں تصفیہ ہوجانا تھا۔

میڈیکل افسر کی جانب سے جرم کی تصدیق کے باوجود پولیس ملزم کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے میں ناکام رہی۔ لیکن جب متاثرہ لڑکی نے اپنی جان لینے کی کوشش کی تو سپریم کورٹ نے واقعے کا نوٹس لیا اور پولیس کو شکایت درج کرنے کا حکم دیا۔

مگر جب مقدمہ ٹرائل کورٹ کے سامنے پہنچا تو لڑکی کے والد نے عدالت کو بتایا کہ وہ جرگے کے تحت ملزمان کے ساتھ ماورائے عدالت تصفیہ کرچکے ہیں اور اجتماعی زیادتی کے الزامات سے دستبردار ہونا چاہتے ہیں۔

جنسی زیادتی اور اجتماعی جنسی زیادتی کے پاکستانی قوانین کے تحت ناقابلِ تصفیہ جرم ہونے کے باوجود ٹرائل کورٹ نے ملزمان کو فوجداری قوانین کی دفعہ K-265 کے تحت بَری کردیا۔ یہ دفعہ عدالتوں کو اختیار دیتی ہے کہ کسی بھی مرحلے پر اگر الزام ثابت ہونے کے امکانات کم ہوجائیں، تو وہ ملزمان کو بَری کرسکتی ہیں۔

تصفیے کی بناء پر بَری کیے جانے کو سپریم کورٹ میں بیرسٹر سلمان اکرم راجہ اور سول سوسائٹی کی کارکن طاہرہ عبداللہ نے عوامی مفاد کی ایک پٹیشن کے ذریعے چیلنج کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹس کی جانب سے جنسی زیادتی کے ملزمان کو تصفیے کی بناء پر بَری کرنے کو خلافِ قانون قرار دیا۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ ’جنسی زیادتی ایک پورے معاشرے کے خلاف جرم ہے‘ اور یہاں تک کہ اگر متاثرہ فریق خود ماورائے عدالت تصفیے کی وجہ سے ثبوت فراہم کرنے کے لیے نہیں آیا تو بھی یہ ریاست کی ذمہ داری تھی کہ وہ مقدمے کو انجام تک پہنچاتی۔

مگر ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے فیصلے کے باوجود ماورائے عدالت تصفیہ ہی جنسی زیادتی کے متاثرین کو دستیاب واحد حل ہوتا ہے۔

پولیس اور جرگے اکثر ماورائے عدالت تصفیے کرواتے ہیں جو اکثر ڈرا دھمکا کر متاثرہ خاندان کو آڑھے ٹیڑھے فیصلے قبول کرنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔

سپریم کورٹ کی جانب سے 2006ء میں فوجداری معاملات میں جرگوں کے فیصلوں کو غیر آئینی قرار دیا تھا، مگر پھر بھی فریقین کے درمیان تنازعات، بشمول جنسی زیادتی کے مقدمات کو اکثر مکمل طور پر مردوں پر مشتمل ان جرگوں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیے: جنسی زیادتی کی تلافی

چوں کہ ان جرگوں کا بنیادی مقصد معاشرے میں نظم و ضبط برقرار رکھنا ہوتا ہے، اس لیے جنسی زیادتی کے الزامات پر ردِ عمل کی توجہ جرگوں میں موجود خاندان کے مردوں کو راضی کرنے میں ہوتی ہے، نہ کہ متاثرہ فریق کو انصاف فراہم کرنے پر۔

ان جرگوں میں متاثرہ فریق کو بھی ملزم کی طرح ہی تصور کیا جاتا ہے، یعنی جنسی زیادتی کے ملزم کی طرح خاندان کی بدنامی کا باعث۔ اس لیے عام طور پر متاثرہ لڑکی کا خاندان بدنامی کو برابر کرنے کے لیے ملزم کو معاف کر دیتا ہے۔

جرگوں کے فیصلوں کو اکثر پولیس کی پشت پناہی ہوتی ہے کیوں کہ جرگوں کے اپنے حلقوں کے سیاسی رہنماؤں سے تعلقات ہوتے ہیں۔

اگست 2017ء میں جرگے نے ملتان کے علاقے راجہ رام میں ایک 16 سالہ لڑکی سے جنسی زیادتی کا حکم دیا کیوں کہ اس کے بھائی پر ایک 12 سالہ لڑکی سے جنسی زیادتی کا الزام تھا۔

2011ء میں خواتین مخالف رسم و رواج پر پابندی کا قانون نافذ کیا گیا جس میں خواتین کو تنازعات کے حل اور رسم و رواج میں استعمال کرنے کے خلاف سخت سزائیں مقرر کی گئیں۔

مگر پولیس عام طور پر صرف تب حرکت میں آتی ہے جب جرم ہوچکا ہو اور وہ بھی تب جب معاملات میڈیا کی زینت بن جاتے ہیں۔

جرگے جنسی زیادتی کے مقدمات حل کرنے میں جو بھی کردار ادا کریں، مگر متاثرہ فریق اور ان کے خاندان اکثر اوقات ٹرائل کورٹ میں جانے کے بجائے ماورائے عدالت تصفیے کو ترجیح دیتے ہیں۔

جرگوں کی طرح فوجداری نظامِ انصاف میں بھی متاثرہ فریق کو ملزم کی طرح غلطی پر تصور کیا جاتا ہے۔ متاثرہ لڑکی کے بیان کو عورت دشمن معیارات پر پرکھا جاتا ہے، اور اُس سے اُس کے کردار اور اُس کے جنسی تعلقات کے بارے میں سوال کیے جاتے ہیں۔

اکثر اوقات تو وہ جب درخواست لے کر آتی ہیں، تو اُسی وقت اُسے یہ کہہ کر جھوٹا قرار دے دیا جاتا ہے کہ جنسی زیادتی کی حقیقی متاثرہ لڑکی کبھی بھی اپنے ساتھ ہوئے واقعے پر توجہ دلا کر مزید بدنامی نہیں خریدے گی۔

ٹرائل کے دوران وکیلِ دفاع متاثرہ لڑکی سے بھری عدالت میں سخت ترین سوالات کرتا ہے، بسا اوقات زیادتی کرنے والے شخص کی موجودگی میں۔ چنانچہ متاثرہ لڑکی اس پورے صدمہ انگیز واقعے کو دوبارہ محسوس کرنے پر مجبور کردی جاتی ہے۔

پڑھیے: 'اطاعت شعار' بنانے کے لیے قبرستان میں زیادتی

گواہوں اور متاثرین کو ملزمان سے کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا اور انہیں دھمکیوں اور ڈرانے والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ الزامات سے دستبردار ہونے پر تیار ہوجاتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود ٹرائل کورٹس ان لوگوں کی مایوسی کی وجہ سے ان تصفیوں کو قبول کرلیتی ہیں جنہیں تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے۔

2013ء میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں جہاں ماورائے عدالت تصفیوں کو غیر آئینی قرار دیا گیا تھا، وہیں متاثرین اور ان کے خاندانوں کو تحفظ فراہم کرنے کے احکامات بھی جاری کیے گئے تھے تاکہ ان پر ملزمان کے ساتھ ماورائے عدالت تصفیوں کے لیے دباؤ نہ ڈالا جاسکے۔

ان احکامات میں متاثرین کا خواتین میجسٹریٹس کے سامنے بیان ریکارڈ کروانا، بند کمرے میں سماعت، ڈی این اے ٹیسٹ کرنا، سیمپلز محفوظ رکھنا اور متاثرین کو نفسیاتی امداد کی فراہمی بھی شامل ہیں۔

مگر 4 سال بعد بھی اس فیصلے کا اطلاق بہت محدود ہے۔ 2016ء میں قومی اسمبلی نے جنسی زیادتی کے متاثرین کی شناخت محفوظ رکھنے اور طبی معائنے اور ڈی این اے ٹیسٹنگ کے مراحل کے متعلق قانون متعارف کروایا۔

مگر جنسی زیادتی کے واقعات میں تیزی آتی جا رہی ہے اور ہر روز ہم گزشتہ روز کے واقعے سے کہیں زیادہ دل دہلا دینے والے واقعے سے متعلق سنتے ہیں۔ تازہ ترین واقعات کے باوجود سزاؤں کی شرح میں کوئی تبدیلی نہیں آ رہی اور زیادہ تر متاثرین انصاف کی تمام امیدیں گنوا دینے کے بعد مفاہمت پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

حکومتِ پنجاب نے 2017ء میں سپریم کورٹ کے 2013ء کے احکامات کی روشنی میں لاہور میں ایک تجرباتی عدالت قائم کی جس کا کام صنفی بنیادوں پر تشدد کے معاملات کو حل کرنا ہے۔

یہ عدالت خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے ایک خوش آئند اقدام ہے اور اس فوجداری نظامِ انصاف میں صنفی حساسیت پر مبنی اصلاحات لانے کے لیے ضروری ہے جو معمول کے مطابق ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی، یعنی خواتین کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہتا ہے۔

لیکن پھر بھی اس بات پر قومی سطح پر بحث ہونی چاہیے کہ صنفی حساسیت رکھنے والے عدالتی ادارے بنانے کے لیے منظم پالیسی اور قانونی اصلاحات لائی جائیں، بجائے اس کے کہ روٹی کے ٹکڑوں کی طرح قانون سازی کی جائے یا انفرادی مقدمات پر ہی بھرپور توجہ دے دی جائے۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں