اسلام آباد: وزیر دفاع خرم دستگیر نے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے نہ صرف پاکستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے موقع کو ضائع کیا جارہا ہے بلکہ وہ پاکستان کے خلاف اپنے جارحانہ رویے کے باعث امن کے عمل کو بھی محدود کر رہا ہے۔

سینیٹ میں پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ بھارت کی موجودہ حکومت کی جانب سے غیر معمولی دشمن جیسا رویہ اور پاکستان مخالف اقدام نے امن کے لیے پیدا ہونے والے عمل کو مسلسل کم کردیا۔

خیال رہے کہ وزیر دفاع کا یہ بیان بھارتی وزیر دفاع نرملا ستھرامان کے اس بیان کے کچھ دن بعد سامنے آیا، جس میں انہوں نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں فوجی کیمپ پر ہونے والے حملے میں 6 فوجیوں کی ہلاکت پر پاکستان کو نتائج کی قیمت چکانے کی دھمکی دی تھی۔

مزید پڑھیں: بھارت نے مہم جوئی کی غلطی کی تو اسی کی زبان میں جواب دیں گے، پاکستان

اگرچہ پاک- بھارت تعلقات کے درمیان کشیدگی اور نئی دہلی کی جانب سے اسلام آباد پر الزامات کوئی نئی بات نہیں لیکن نریندر موودی کی حکومت کے بعد پاکستان مخالف بیانات نے ایک نئی سطح کو چھولیا ہے اور اس میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جبکہ پاکستان کی جانب سے بھارتی رہنماؤں کے بیانات پر جواب دیا گیا تھا، تاہم اس دوران بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر سیز فائر کی خلاف ورزی میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔

گزشتہ برس بھارت کی جانب سے سب سے زیادہ 1881 مرتبہ سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی جو 2003 کے بعد سب سے زیادہ تھی اور اس سیز فائر کی خلاف ورزی کے نتیجے میں شہریوں اور فوجیوں سمیت 87 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

اس کے علاوہ بھارت کی جانب سے یہ عمل رواں سال بھی جاری ہے اور اب تک 200 سے زائد مرتبہ سیز فائر کی خلاف ورزی کی جاچکی ہے، جس کے نتیجے میں 14 افراد اپنی جانیں گوا چکے ہیں۔

اس بارے مین وزیر دفاع خرم دستگیر نے بتایا کہ لائن آف کنٹرول میں بھارتی کی جانب سے فائرنگ اور گولہ باری میں اضافہ ہوا ہے جبکہ پاکستان مخالف اقدامات بھی بڑھ رہے ہیں۔

خرم دستگیر نے بتایا کہ بھارت کی حکومت کی جانب سے اس وقت امن کا موقع کھویا گیا، جب بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان میں سیاسی اتفاق رائے موجود تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی بھارت کو ایک مرتبہ پھر مذاکرات کی پیشکش

انہوں نے مزید بتایا کہ بھارت کی جانب سے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن، بھاری فوجی مشقیں اور امن عمل میں تبدیلی پاکستان کی جانب نئی دہلی کے جارحانہ رویے کا ثبوت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا یہ تاثر کہ اسے بھارت کی جانب سے خطرے کا سامنا ہے کسی طرح کا رد عمل نہیں ہے بلکہ یہ ان جامع مشاہدات پر مشتمل ہے، جن میں بھارت کی جانب سے اگلے مورچوں پر پاک فوج کو دھمکیاں دی جاتی ہیں جبکہ ان خطرات کا شمار اندازے پر نہیں بلکہ خطرے کی نوعیت پر کیا گیا ہے۔


یہ خبر 15 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں