سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا نوٹس کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے اسلام آباد پولیس کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے دھرنا مظاہرین کے خلاف کیے گئے اقدامات سے متعلق رپورٹ دو ہفتوں میں طلب کرلی۔

سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا نوٹس کیس کی سماعت دو رکنی بینچ نے کی، بینچ جسٹس مشیر عالم اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل تھا۔

عدالت عظمیٰ نے اسلام آباد پولیس کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا جبکہ عدالت عظمیٰ نے دھرنا مظاہرین کے خلاف کیے گئے اقدامات سے متعلق رپورٹ دو ہفتوں میں طلب کرلی۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد دھرنے کے شرکاء کے پاس آنسو گیس کہاں سے آئے؟ سپریم کورٹ

فیض آباد دھرنا از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو بتایا جائے دھرنا مظاہرین کے سربراہ کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟

جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے مزید کہا کہ اس کا کیا مطلب ہے لاہور سے چل کر پنڈی کے لیاقت باغ پہنچ جائیں اور کوئی روکنے والا نہ ہو، یہ بڑا آسان کام ہے چند بندے اکھٹے کرو اور ریاست کو مفلوج کرنے کے بعد اپنے مطالبات پورے کر والو۔

جسٹس مشیر عالم کا کہنا تھا کہ لگتا ہے کوئی بھی شخص ریاست کو مفلوج کرکے اپنے مطالبات پورے کروا سکتا ہے، انہوں نے استفسار کیا کہ کیا دھرنے کا سربراہ اور کوئی موجود شخص واچ لسٹ پر تھا یا رکھا گیا ہے؟

انہوں نے استفسار کیا کہ کتنے لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی؟ کیا جاں بحق اور زخمی پولیس اہلکاروں کو معاوضہ دیا گیا؟

یہ بھی پڑھیں: فیض آباد دھرنا نوٹس:سپریم کورٹ نے پیمرا کی رپورٹ مسترد کردی

اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ تحریک لبیک ایک رجسٹرڈ پارٹی ہے، جس پر جسٹس مظہر عالم نے استفسار کیا کہ رجسٹرڈ پارٹی کا لیڈر ایسے کام کرتا رہے اور کوئی پوچھے نہ؟

اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ 418 افراد کو گرفتار کرکے ایف آئی آر درج کی گئیں، وفاقی دارالحکومت میں صرف ایک بچے کی موت واقع ہوئی جبکہ باقی مرنے والے پنجاب کے علاقے سے تھے اور مظاہرین تھے۔

اس کے علاوہ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مظاہرین سے نمٹنے کے لیے انٹی رائٹس لاء کے قانون کے لیے مسودہ تیار کرلیا گیا ہے اور مسودہ جلد ہی پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے گا۔

بعد ازاں جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ ٹی وی چینلز کے خلاف کیا کارروائی ہوئی، جس پر پیمرا کے وکیل نے بتایا کہ ایک ٹی وی چینل کے خلاف شکایت موصول ہوئی تھی اس کو نوٹس جاری کردیا ہے اور اس کا جواب چینل 15 روز میں دے گا۔

عدالت نے اسلام آباد اور پنجاب پولیس سے مظاہرین اور ان کے سربراہ کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیلات اور رپورٹ دو ہفتوں میں طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے اسلام آباد دھرنے کا نوٹس لے لیا

خیال رہے کہ 3 جنوری 2018 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیض آباد دھرنا کے حوالے سے نوٹس کیس میں پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگرلیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی پیش کردہ رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ادارے کو نئی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

سپریم کورٹ میں ایک کیس کی جاری سماعت کے دوران وکلا کے مقررہ وقت پر نہ پہنچنے ہر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنے کا نوٹس لیا تھا۔

30 نومبر 2017 کو ہونے والی سماعت میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اسلام آباد دھرنے کے شرکاء کے خلاف آپریشن سے متعلق انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ پر برہمی کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ دھرنے میں شریک مظاہرین کو پولیس کا مقابلہ کرنے کے لیے آنسو گیس، لاٹھیاں اور ماسکس کس نے فراہم کیے؟

فیض آباد دھرنا

واضح رہے کہ اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت نے ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف 5 نومبر 2018 کو دھرنا دیا۔

حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔

آپریشن کے خلاف اور مذہبی جماعت کی حمایت میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، 27 نومبر 2018 کو حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے، جس میں دوران آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں