اسلام آباد: وزارتِ داخلہ نے سابق وفاقی وزیر ریلوے لیفٹننٹ جنرل (ر) جاوید اشرف قاضی کا نام ایگزٹ کنڑول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کر لیا۔

باوثوق ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی درخواست پر ریلوے کے سابق چیئرمین لیفٹننٹ جنرل (ر) سعید الزمان ظفر، سابق جنرل مینیجر میجر جنرل (ر) حامد حسن بٹ اور سابق ممبر بریگیڈیئر (ر) اختر علی بیگ کا نام بھی ای سی ایل میں شامل کر لیا گیا۔

مذکورہ ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے 2001 میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں لاہور میں ریلوے کے اہم ترین 140 ایکٹر اراضی غیر قانونی طور پر ملائیشیا کی ایک فرم کو دے دی تھی۔

ملزمان نے یہ زمین رائل پام گولڈ گالف کورس اور کنٹری کلب کے لیے سستے داموں فروخت کی تھی جس سے قومی خزانے کو 2 ارب 16 کروڑ روپے کا نقصان ہوا تھا۔

مزید پڑھیں: ریلوے گالف کلب اسکینڈل: ‘ریٹائرڈ جنرلز’ کےخلاف تحقیقات کا حکم

گزشتہ ہفتے اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ سابق ملٹری افسران اب فوج کے احتسابی عمل کے پیچھے نہیں چھپ سکتے۔

دریں اثنا نیب نے بھی سابق فوجی افسران بشمول جاوید اشرف قاضی کے خلاف کرپشن کے ریفرنسز کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کرلیا جو تقریباً ایک دہائی سے انسداد بدعنوانی کے نگراں اداروں کی لاپرواہی کی وجہ سے دیئے ہوئے تھے۔

نیب کے ترجمان نے بتایا کہ ادارے کے اعلیٰ افسران کا ایک اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ لیفٹننٹ جنرل (ر) جاوید اشرف قاضی، لیفٹننٹ جنرل (ر) سعیدالزمان ظفر، میجر جنرل (ر) حامد حسن بٹ اور بریگیڈیئر (ر) اختر علی بیگ کے خلاف ریلوے کے سابق جنرل مینیجر اقبال صمد خان، ریلوے کے سابق ممبر خورشید احمد خان، سابق ڈائریکٹر عبدالغفار اور سابق سپرنٹنڈنٹ محمد رمضان شیخ کے خلاف ریفرنس کو دوبارہ کھولے جائیں گے۔

علاوہ ازیں اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ حسین کنسٹرکشن کمپنی کے ڈائریکٹر پرویز لطیف قریشی، یونین کنسلٹنگ سروسز کے چیف ایگزیکٹو، ملائیشیا کی میکس کو ڈویلپمنٹ کمپنی کے ڈائریکٹر سمیت دیگر افراد کو بھی شامل تفتیش کیا جائے گا جس نے قومی خزانے کو اتنا نقصان پہنچایا۔

یہ بھی پڑھیں: ریلوے اراضی اسکینڈل: ‘سابق چیف’ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا مطالبہ

خیال رہے کہ لیفٹننٹ جنرل (ر) جاوید اشرف قاضی پاکستان کے اہم ترین سیکیورٹی ایجنسی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) کے عہدے پر بھی فرائض انجام دے چکے ہیں جبکہ وہ پشاور کے کور کمانڈر بھی رہے تھے۔

واضح رہے کہ مذکورہ فوجی افسران کو نیب نے 2012 میں اسی کیس کے سلسلے میں اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا تھا، تاہم بعدِ ازاں اس معاملے میں کوئی پیش رفت سامنے نہیں آسکی تھی۔

قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے 14 ستمبر 2012 کو ملائیشیا کی کمپنی کے ساتھ ہونے والے اس متنازع معاہدے کو ختم کردیا تھا جبکہ اس زمین کی نئے سرے سے بولی لگوائی جبکہ ریلوے کے سابق افسران کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایت بھی کی تھی۔


یہ خبر 27 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں