اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) نے انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق چیف سمیت 4 فوجی افسران کے خلاف 17 برسوں سے زیر التوا 2 ارب سے زائد کرپشن ریفرنس کھلنے کا فیصلہ کرلیا۔

فوجی افسران پر الزام ہے کہ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں لاہور میں ریلوے کی ہزاروں ایکٹر زمین ملائیشن فرم کو کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کی جس پر رائل پام گولڈ اور کنٹری کلب تعمیر کیے گئے۔

یہ پڑھیں: نیب کو پرویز مشرف کےخلاف مبینہ کرپشن کی تحقیقات کا حکم

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ ریٹائرڈ فوجی افسران آرمی کے احتسابی عمل کے پیچھے نہیں چھپ سکتے ۔

نیب کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ سابق ریلوے وزیر ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل جاوید اشرف قاضی، سابق ریلوے چیف ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل سعید ظفر، سابق جی ایم ریٹائرڈ میجر جنرل حمید حسن بٹ ، سابق ممبر ریلوے ریٹارئرڈ بریگیڈیئر اختر علی بیگ، سابق جنرل مینجر اقبال صمد خان، سابق ممبر خورشید احمد خان، سابق ڈائریکٹر غفار، سابق سپرنٹنڈنٹ محمد رمضان شیخ، ڈائریکٹر حسین کنسٹرکشن کمپنی، پرویز لطیف قریشی، چیف ایگزیکٹو یونیوکون کنسلٹنگ سروسز، ڈاکٹر میکس کارپوریشن، ڈویلپمنٹ ملائیشا اور دیگر پر اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے قومی خزانے کو 2 ارب روپے نقصان پہنچانے کا الزام ہے ۔

یاد رہے کہ ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل قاضی آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل بھی تعینات رہ چکے ہیں جبکہ ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل سعید الظفر پشاور میں کور کمانڈر کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔

اس سے قبل نیب نے 2012 میں نامزد تمام سابق فوجی افسران کو بیانات قلمبند کرنے کے لیے طلب کیا لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں لا ئی جا سکی۔

یہ بھی پڑھیں: نیب نے پی آئی اے طیارہ گمشدگی کی تحقیقات شروع کردی

14 ستمبر 2013 کو قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے متنازع معاہدہ کو منسخ کرکے ریلوے کی زمینوں پر نئی بولی لگانے کے ساتھ ہی ریلولے کے 3 ریٹائرڈ جنرلز کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کی تجویز پیش کی، مذکورہ متنازع معاہدے کو تینوں ریٹائرڈ جنرلز کی توثیق حاصل تھی۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی تجویز کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ 141 ایکٹر کی زمین انتہائی کم ریٹ پر فروخت کرکے قومی خزانے کو 4 ارب 82 کروڑ کا نقصان پہنچا یا گیا، ذمہ داران نے ریلوے زمین 4 روپے فی مربع فٹ کے حساب سے فروخت کی جب کہ اس وقت اس کی 52.43 روپے فی مربع فٹ تھی۔

وفاقی وزیر کے خلاف تحقیقات کا حکم

نیب نے وفاقی وزیر برائے نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشن اینڈ کوآرڈینیشن سائرہ افضل تارڑ کے خلاف پرائیوٹ میڈیکل کالجز کی رجسٹریشن اور ادویات کی قیمتیں فکس کرنے سمیت دیگر بے ضابطگیوں سے متعلق مبینہ کرپشن کے خلاف تحقیقات کا حکم دے دیا۔

نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے ایگزیکٹو بورڈ میٹنگ (ای بی ایم) کی صدارت کرتے ہوئے وفاقی وزیرکے خلاف تحقیقات کا حکم دیا۔

مزید پڑھیں: ’پنجاب حکومت نیب کے ساتھ تعاون نہیں کررہی‘

اس سے قبل نیب نے ڈرگ ریلولیٹر اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) میں گریٹ 21 کی پوسٹ ‘چیف ایگزیکٹو آفسیر’ پر گریٹ 19 کے ‘مردہ’ آفسر کو تعیناتی کا معاملہ اٹھایا تھا۔

7 فروری کو وفاقی کابینہ نے شیخ اختر حسین کو ڈریپ کا سی ای او تعینات کیا جبکہ شیخ اختر نے اپنے خلاف 2001 اور 2004 میں دائر کرپشن کیس سے بچنے کے لیے خود کو ‘مردہ’ قرار دے تھا۔

وزارت صحت میں متعدد کرپشن کے کیسز میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آئے ۔

کرپٹ واپڈا آفسر کے خلاف گھیرا تنگ

نیب کے ایگزیکٹو بورڈ نے نے واپڈا کے سابق چیئرمین طارق حمید سمیت سابق ممبر پوار محمد انور خالد، ممبر واٹر محمد مشتاق، سابق ممبر فنانس امیتاز انجم اور دیگر کے خلاف جنرل انرجی پرائیوٹ لمیٹڈ کو 150 میگا وٹ رینٹل پاور پراجیکٹ خلاف ضابطہ تفویض کرنے پر تحقیقات کا حکم بھی دیا۔

اس حوالے پڑھیں: پی آئی اے طیارے کی جرمن میوزیم کو فروخت:نیب کو تحقیقات کا حکم

نیب کے ایگزیکٹو بورڈ نے دومختلف تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے سابق صوبائی وزیر عبدالروف صدیقی، محمد عدیل صدیقی اور ڈاکٹر سروت فہیم، مشتاق علی، محمود احمد، غلام نبی مہر، سید امداد علی شاہ، سید امید علی شاہ اور دیگر کے خلاف اختیارات کا ناجائزہ فائدہ اٹھاتے ہوئے قومی خزانے کو 43 کروڑ 50 لاکھ نقصان پہنچانے کا الزام عائد کیا۔


یہ خبر 21 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں