اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع نے تنبیہ کی کہ آزاد جموں کشمیر کو متنازع علاقہ دکھانے والے نقشوں کو ہرگز اسعتمال نہ کیا جائے۔

مذکورہ مسئلہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع نے وزارت دفاع سے مجوزہ دفاعی بجٹ19-2018 کے دوران اٹھایا گیا۔

یہ پڑھیں : ’آزاد جموں کشمیر پاکستان کا حصہ ہے‘

کمیٹی کو بتایا گیا کہ پاکستان کے بعض نقشوں میں آزاد جموں کشمیر کو بطور متنازع علاقہ دکھایا گیا ہے۔

سیکریٹری دفاع (ر) لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الحسن شاہ نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ’اس معاملے پر پہلے ہی توجہ دی جا چکے ہیں اور تمام متعلقہ وزارت، ڈویژن، ڈپارنمنٹ سمیت بیرون ملک مشنز کو پاکستان کے نقشوں کی سافٹ اور ہارڈ کاپی فراہم کی جا چکی ہیں‘۔

کمیٹی نے حکومت سے کہا کہ وہ اپنی ویب سائٹ پر پاکستان کے تازہ نقشے شائع کرے۔

مزید پڑھیں: جاگو انڈیا،تم کشمیر کو کھو رہےہو: فاروق عبداللہ

واضح رہے کہ مئی 2016 میں پاکستان نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے صدر کو لکھے گئے خط میں ہندوستان میں پیش کیے گئے ایک متنازع 'جیوسپیشل انفارمیشن ریگولیشن بل' پر شدید تشویش کا اظہار کیا تھا جس کے تحت کشمیر کے متنازع علاقے کو نقشے میں ہندوستان کا حصہ دکھایا گیا۔

ہندوستان کا جیوسپیشل انفارمیشن ریگولیشن بل

مئی 2016 کے آغاز پر ہندوستان کی وزارت داخلہ کی ویب سائٹ پر شائع کیے گئے مذکورہ بل کے مطابق 'کوئی بھی شخص کشمیر سمیت بعض متنازع علاقوں کو انٹرنیٹ پلیٹ فارمز، آن لائن سروسز یا کسی بھی الیکٹرانک یا فزیکل شکل میں ہندوستان کی سرزمین سے الگ نہیں دکھا سکتا'۔

مزید کہا گیا کہ خلاف ورزی کرنے والوں کو 7 سال قید اور 100 کروڑ (ایک ارب) روپے جرمانے کی سزا دی جاسکتی ہے۔

بل کے مطابق، 'گوگل میپس یا ایپل میپس جیسی سروسز سے بھی نقشہ حاصل کرنے، شائع کرنے یا تقسیم کرنے کے لیے لائسنس کی صورت میں اجازت کی ضرورت ہوگی'۔

جبکہ ہندوستان سے باہر بھی مذکورہ نقشہ حاصل کرنے کے لیے اجازت کی ضرورت ہوگی۔

مزید پڑھیں: آزاد کشمیر: بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ سے بچوں سمیت 6 زخمی

یاد رہے کہ گذشتہ سال ہندوستانی حکومت نے ایک ہفتے کے لیے الجزیرہ ٹی وی چینل کی نشریات بند کردی تھیں کیونکہ چینل نے متعدد مرتبہ کشمیر کا درست نقشہ دکھایا تھا۔

واضح رہے کہ کشمیر کا خطہ، پاکستان اور ہندوستان کے درمیان متنازع ہے اور اس مسئلے پر دونوں ملکوں میں کئی جنگیں بھی ہوچکی ہیں۔

دوسری جانب جنگ بندی کے معاہدے کے باوجود لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر دونوں ممالک کی فورسز میں شیلنگ اور فائرنگ کے واقعات بھی پیش آتے رہتے ہیں، جن کے نتیجے میں فوجیوں کے ساتھ ساتھ عام شہری بھی ہلاک ہوئے جبکہ مالی نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔


یہ خبر 28 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں