عامر شام گئے دفترسے گھر لوٹا تو گلی میں غیر معمولی سناٹے کا راج تھا۔ گھر میں داخل ہوا تو وہاں بھی ہو کا عالم طاری تھا۔

’یااللہ خیر! کیا معاملہ ہے؟ اس نے گھر میں داخل ہوتے ہی بیوی سے استفسار کیا۔ بچے کہاں ہیں؟‘ یہ تو ان کے کھیلنے کا وقت ہے۔

’پڑھائی کررہے ہیں، آپ بھول گئے شائد، امتحانات سر پر ہیں۔‘

’اوہ اچھا! لیکن ایسا بھی کیا۔ سارے سال تو پڑھتے رہے ہیں۔‘

’آپ تو بس رہنے دیں۔ اسد اس سال بورڈ کا امتحان دے رہا ہے اور دانیہ کا او لیول اگلے سال سے شروع ہونے والا ہے۔ گریڈز اچھے نہ آئے تو کسی کالج اور اسکول میں داخلہ نہ ملے گا۔‘

’بچوں کے مستقبل کا معاملہ ہے، مذاق نہیں۔ میں نے تو کہہ دیا ہے کہ آج سے سب کھیل تماشے بند۔ اور آپ بھی ٹی وی ہلکی آواز میں دیکھیے گا۔‘

’ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ عامر سوچتا ہوا اٹھ گیا کہ نہ جانے امتحانات کے اس وبال سے کب جان چھوٹے گی۔ پہلے اپنی تعلیم تھی تو اب بچوں کی۔‘

ان دنوں ملک میں سالانہ امتحانات کا موسم شروع ہوچکا ہے۔ لہٰذا اسکول جاتے تمام ہی بچوں کے گھر میں سناٹے اور دہشت کا عالم طاری ہے۔ پارک اور کھیل کے میدان ویران اور کوچنگ و ٹیوشن سینٹرز آباد ہوچکے ہیں۔

ایسے میں والدین کی تشویش اور بچوں کی درگت ہر دوسرے گھر کا قصہ ہے۔

اس پس منظر میں اکثر گھر کے بزرگوں کو کہتے سنا ہے کہ خدا جانے آج کے دور میں پڑھائی کو کیوں اس قدر عذاب بنا رکھا ہے۔ پچھلے زمانے میں تو ہر گھر میں درجن بھر بچے مزے سے پڑھ لکھ جاتے تھے، لیکن نہ تو فیسیں ادا کرتے کرتے والدین کی جیب تنگ پڑجاتی تھی اور نہ بچے پڑھ پڑھ کر یوں ادھ موئے ہوتے تھے۔

پھر غور کیا جائے تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ چوٹی کے عالم، شاعر، سائنسدان، سیاستدان اور دانشور انہی ادوار کی ہی پیداوار ہیں۔ آج کے نظام تعلیم نے تو محض دفتری کارکن اور کارپوریٹ ورکرز کی ایک کھیپ تیار کی ہے جو ساری زندگی فکرِ معاش اور طبقہ جاتی مسابقت کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔

پڑھیے: بچے کو ابتدائی تعلیم انگریزی میں کیوں نہیں دینی چاہیے

پاکستان ایجوکیشن کمیشن اور یونیسیف کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق، ملک میں اسکول جانے والے (5 سے 14 سال کی عمر کے) بچوں کی تعداد لگ بھگ 50 لاکھ ہے جن میں سے محض 27 لاکھ (یعنی 54 فیصد) خوش قسمت بچے اسکول کی شکل دیکھ پاتے ہیں اور ان میں سے بھی محض نصف بمشکل ہائی اسکول تک پہنچ پاتے ہیں، تاہم یہاں تذکرہ انہی خوش قسمت بچوں کا ہے جن کا بچپن فکرِ گریڈ اور ٹین ایج عارضہءِ پرسنٹیج میں صرف ہوجاتی ہے جبکہ جوانی غمِ روزگار اور اونچے معیارِ زندگی کی دوڑ میں۔

اس حوالے سے جب ہم نے کچھ ذی شعور والدین سے امتحانات میں کامیابی سے نپٹنے کے گُر پوچھے تو ان کا کہنا تھا کہ پڑھائی اور امتحانات کو خود کے اور بچوں کے حواس پر سوار کرنا صریحاً حماقت ہے۔ یمنیٰ جو ایک پڑھی لکھی خاتون اور دو ننھے بچوں کی والدہ ہیں ان کے خیال میں اگر بچے پورے سال پڑھتے ہوں تو امتحانات کے دوران گھر میں کرفیو جیسا ماحول پیدا کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں، اور اگر سارا سال ڈنڈے بجاتے ہیں تو امتحانات میں نمایاں گریڈز کے لیے دباؤ ڈالنا زیادتی ہے۔

اس کے برعکس والدین کو چاہیے کہ بچوں کو باور کروائیں کہ سال کی باقی رتوں کی طرح امتحان کا مختصر موسم معمول میں کچھ جز وقتی تبدیلیوں کا متقاضی ہے، جیسے پڑھائی پر دوسرے مشاغل کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ توجہ اور اس حوالے سے اپنے ٹائم ٹیبل میں مناسب تبدیلی وغیرہ۔

جہاں آراں (نام تبدیل کیا گیا ہے)، جو 2 ٹاپ اسکورر ٹین ایج بچوں کی والدہ ہیں، کہتی ہیں کہ امتحانات کے دوران متوازن خوراک اور مکمل نیند بہتر کارکردگی کی اولین شرط ہے۔ نیز بحیثیت والدین ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے بچوں کے انفرادی مزاج اور صلاحیتوں کو پہچانیں اور اس کے مطابق ان سے حقیقت پسندانہ توقعات وابستہ کریں۔

جہاں آراں کے مطابق ان کا بیٹا جو او لیول فائنل کا طالب علم ہے، ایک محنتی، منظم اور کھیل کود کا شوقین بچہ ہے، لہٰذا اسے پڑھائی کے ساتھ ساتھ انہوں نے کرکٹ کھیلنے کا بھی بھرپور موقع فراہم کیا، تاہم اس وعدہ کے ساتھ کہ اگر وہ اپنے شوق اور پڑھائی میں توازن رکھے گا اور بہتر گریڈز لائے گا تو اس کے شوق میں کوئی رکاوٹ نہیں بنے گا۔

پڑھیے: تعلیمی معیار کی پسماندگی میں امتحانی نظام کا کردار

اس کے برعکس، ان کی بیٹی، ذہین اور پُراعتماد لیکن لاابالی واقع ہوئی ہے جس کی دلچسپی پڑھائی سے زیادہ غیر نصابی سرگرمیوں میں رہتی ہے۔ لہٰذا اس کے میلان کو دیکھتے ہوئے جہاں آراں نے اس کے لیے مختلف آن لائن کورسز تلاش کیے اور اسے ترغیب دی کہ اگر وہ دل جمعی کے ساتھ پڑھائی کرے گی اور اپنی دلچسپیوں اور سرگرمیوں کو سلیقے سے ساتھ لے کر چلے گی تو اسے اپنے تمام مشاغل میں والدین کا بھرپور تعاون حاصل ہوگا۔

حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دور کے بیشتر بچے از خود بے حد ہوشیار، ذمہ دار اور باصلاحیت ہیں۔ لہذا انہیں بے جا روک ٹوک اور ذہنی و جذباتی دباؤ کی بھٹی میں ڈال کے اعلیٰ نتائج کے حصول کی کوشش، والدین کی سب سے بڑی بھول ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ ریس کے گھوڑوں کی طرح سرپٹ دوڑتے یہ بچے، والدین کو تعلیم اور کھیل کے میدان میں کامیابی کے کچھ تمغے تو جتوا دیں، لیکن زندگی کے عملی میدان میں اکثر اپنا آپ، اپنی پہچان اور اپنا مقصد حیات گنوا بیٹھتے ہیں۔

معروف ماہرِ تعلیم اور مصنف الفی کوہن اپنی کتاب Punished by Rewards میں لکھتے ہیں ’اعلیٰ گریڈز ایک سزا ہیں جن کے حصول کے لیے بیشتر والدین خود کو اور بچوں کو مستقل اذیت میں مبتلا رکھتے ہیں۔‘ بظاہر یہ منطق عجیب معلوم ہوتی ہے تاہم غور کیا جائے تو موجودہ دور کے تعلیمی نظام کا قبلہ و کعبہ امتحان اور معراج، حصول نمبر اور گریڈز ہیں۔

اور کیوں نہ ہوں آخر یہ A اور A+ گریڈز کی چمک اور پرسنٹیج کی سیڑھی ہی تو ہوتی ہے جو نئی نسل کو اچھے اسکول سے بہتر کالج، بہترین یونیورسٹی، من چاہی نوکری، کاروبار اور قابلِ رشک معیارِ زندگی کی بلندیوں تک پہنچا دیتی ہے۔ اکثر والدین کا قیاس ہے کہ اس میں اگر بے مول بچپن، لڑکپن، جوانی اور بے کار کے شوق اور رجحانات کی معمولی قربانی دینی پڑے تو سودا کچھ اتنا بُرا بھی نہیں ہے۔

تاہم دنیا کے ماہرِ تعلیم اور زیرک محقق اس بات پر متفق ہیں کہ روایتی طرزِ تعلیم، خواہ وہ عوامی میٹرک و انٹر سسٹم نظام ہو یا امپورٹڈ کیمبرج (او اور اے لیول) سسٹم، بچوں کی طبعی ذکاوت اور تخلیقی صلاحیتوں کے قطعی منافی ہے۔ اس پر امتحانات کا تازیانہ اور ناکامی کا خوف بیشتر بچوں کے سوچنے، سمجھنے اور سیکھنے کی صلاحیت کو مفلوج کردیتا ہے۔

پڑھیے: ہم بچے نجی اسکولوں کے لیے ہی تو پیدا کرتے ہیں

سوال یہ ہے کہ ایسے میں والدین کریں بھی تو کیا؟ آخر بچوں کو تعلیم دلانا اور ان کا مستقبل بنانا ان کا فرض اولین ہے۔ اس حوالے سے تیزی سے بدلتے معاشی اور معاشرتی دنیا کے حقائق سے آگاہی، والدین اور بچوں کی بقاء کے لیے اشد ضروری ہے۔

جدید تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ جو بچے امتحانی میدان کے شہ سوار ہوتے ہیں، ضروری نہیں کہ عملی میدان میں بھی غیر معمولی کامیابی ان کا مقدر بنے۔ یہاں یہ امر قابلِ غور ہے کہ نئے معاشی نظام میں پُراعتماد ٹیم ورکرز اور تخلیقی سوچ رکھنے والے نڈر اور بے لوث افراد کی مانگ ہے جو مشکل اور فوری فیصلے کرنے کی صلاحیت اور نقصان اٹھانے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔

تاہم سزا اور جزا سے جڑا ہمارا فرسودہ تعلیمی نظام اس وقت بھی ایسے روبوٹ تیار کرنے میں جتا ہے جن کی زندگی کا مقصد اولین، وائٹ کالر جاب، منزل ملٹی نیشنل ادارے میں سی ای او کی کرسی اور انتہا، بیرون ملک نوکری اور شہریت کا حصول ہے، تاکہ اپنی آئندہ نسلوں کا مستقبل دیارِ غیر میں محفوظ کیا جا سکے۔

سچ تو یہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی خواہش میں کوئی بُرائی نہیں، بشرط یہ کہ اس کی قیمت ایک آزاد اور زندگی سے بھرپور روح کا کچلا جانا نہ ہو جسے زندگی کی تمام تر مادی آسائشیں تو مل جائیں لیکن سچی خوشی، سکونِ قلب، مخلص دوستیاں اور اپنوں کی صحبت نصیب نہ ہوسکے۔ کیونکہ معاشی ہوس کی اندھا دھند دوڑ میں ساتھ چلنے والوں کو روندنا عام رواج ہے۔ یہ موجودہ مسابقتی دور کا ہی شاخسانہ ہے کہ بچوں اور نوجوانوں کا آن لائن نیٹ ورک تو بہت بڑا ہوتا ہے لیکن حقیقی زندگی میں نہ تو انہیں رشتے بنانے آتے ہیں، نہ دوستیاں نبھانا۔

فی زمانہ عالم یہ ہے کہ والدین اور بھائی بہن ایک چھت تلے رہتے ہوئے بھی کئی دفعہ بات چیت کے لیے موبائل کا سہارا لیتے ہیں، اکثر امتحانات کے دنوں میں ہونہار طلباء والدین سے زچ نظر آتے ہیں۔ ایسے میں کئی بچوں کو کہتے سنا ہے کہ امی جلدی بولیں جو کہنا ہے، میرے پاس وقت نہیں ہے۔ بابا لمبی بات کرنی ہے تو میسیج کردیں، میں بعد میں دیکھ لوں گا، ابھی کوچنگ کو دیر ہو رہی ہے۔

پڑھیے: تعلیم برائے فروخت ... قیمت؟

معروف ایجوکیشنل سائیکولوجسٹ اور ایجوکیشنل ریسورس ڈویلپمنٹ سینٹر (ERDC) کے روح رواں، جناب سلمان آصف صدیقی کا اس حوالے سے والدین کو مشورہ ہے کہ اگر وہ اپنے بچوں کو ایک فعال اور کامیاب انسان دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں غیر مشروط احترام، محبت اور توجہ دیں اور ان کی ذات پر مکمل بھروسہ رکھیں۔ بُرے سے بُرے نتائج کی صورت میں بھی والدین کی مثبت سوچ اور متوازن ردِعمل، بچے کو مایوسی اور گمراہی سے بچا سکتا ہے۔

یوں دیکھا جائے تو گریڈز خراب آنے کی صورت میں سب سے زیادہ دل برداشتہ خود بچہ یا بچی ہی ہوتی ہے، ایسے میں والدین کی ڈانٹ ڈپٹ، مار پیٹ اور جذباتی ردِعمل اسے توڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ نتیجتاً ایسے بچے اکثر جذباتی، زود رنج اور متزلزل شخصیت کے ساتھ پروان چڑھتے ہیں جنہیں نہ خود پر اعتماد ہوتا ہے، نہ دنیا پر۔

جو بات بچوں اور والدین کے یاد رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ امتحانات محض ایک مرحلہ ہے نصاب سے متعلق طلباء کی یادداشت اور امتحانی تکنیک کی سمجھ بوجھ کا۔ اس سے نہ تو کسی فرد کی قابلیت جانچی جاسکتی ہے، نہ ہی اس کا علم اور شوق، لہٰذا والدین اسے زندگی اور موت کا مسئلہ نہ بنائیں۔ محض اپنی انا کی تسکین کی خاطر، ایک بچے کا کسی بھی دوسرے بچے سے موازنہ کرنا حماقت ہے۔

ناکامی کے خوف اور مسابقت کے جنون میں اسکول اور ٹیوشن سینٹروں کے ہاتھوں لٹنا اس سے بڑی بھول ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ کا بچہ یا بچی اپنی ذات میں منفرد صلاحیتوں کا مالک ہے۔

اسے اپنی رفتار اور رجحان کے مطابق پھلنے پھولنے دیں، اپنی شفقت کی پھوار اور تجربے کی مٹی سے اسے نمو ضرور دیں، لیکن امر بیل کی طرح خود کی ناتمام خواہشات اور حسرتوں کا بوجھ اس پر نہ ڈالیں، مبادا وہ ایک تناور درخت بننے کے بجائے آپ کے خوف اور امید کی گھٹن میں محض ایک کھوکھلے وجود کی صورت پروان چڑھے جو نہ پھل دیتا ہے نہ پھول اور نہ ہی سایہ، محض معاشی الاؤ کا ایندھن بن کر رہ جاتا ہے۔

تبصرے (14) بند ہیں

Ather Mar 06, 2018 10:35am
Thanks to write on this topic. We as a parent have this great responsibilty to understand which lead to develop good personality of our kids and a progressive society as a whole. A great piece of advise to all parents & students.. Let us us grow the seed for a better future.
Dr m abid ali Mar 06, 2018 12:31pm
The examination system has a short future as west is realizing the uselessness of examinations in producing a performing person, both at the personal as well as employment level. I congratulate Dr. Erum on this so much needed reminder. I recommend the readers to watch Sir Ken Robinson's talks and RSA Animate presentation on the web.
Erum Hafeez Mar 06, 2018 02:04pm
@Dr m abid ali Indeed. Two quite relevant and valuable resources in this regard. Thanks for your apt feedback Dr Sb.
ARA Mar 06, 2018 02:49pm
Is this a continuation of the so-called Self-Esteemed Movement of 1980s that has created a large number of narcissists who think they are the best and it is the professors who give them "F" grades???
Huma abbas Mar 07, 2018 01:45pm
@Ather Sahi kaha aap nai. It's our key duty. CruciaL issue and very weLL written! Must be highlighted at every front.
NAZEER AhmeD Mar 07, 2018 02:48pm
Very nice article. Keep it up. I need your permission to share it with my students at Hamdard University and friends. Best regards.
Salman asif siddiqui Mar 07, 2018 03:25pm
Very effectively written MashaAllah. I am glad that she chose Urdu language to express her views. Hope it will make parents think.
Khurram naseer Mar 07, 2018 04:57pm
Salaam, I just read your article. Must say an eye opening piece for parents and policy makers. Brilliant style of writing and apt references. Thanks for writing on such a core but neglected issue.
ahmed mukhtiar Mar 08, 2018 09:25am
dawn me apkartIcIe parha, very nice me ap se 100 percent agree kerta hoon..... again very nice
ُپاکستانی Mar 08, 2018 11:41am
بہت ہی خوبصورت تجاویز ہیں- شکریہ۔
Sanam rehan Mar 10, 2018 02:01am
Behtareen umda mazmoon..Apki tamam tar tehqeeq aur malumat waledain ke liye nihayet hi mufeed o karamad sabit hongi. Shukriya is kar e khair me hisa bnanai ka.moqa farahim kernay ke liye. Mamnoon. Sanam Rehan urf JehanAra
sameen ahmed Mar 11, 2018 10:01pm
Nicely written!! As a Pakistani mom I am always worried when my kids don't study during tests and assessments here in USA. They always said we have already studied in school even the school sends letter they need to take rest enough sleep no need to study.
tayyaba khan Mar 12, 2018 07:02am
I think that parents and teachers should not put much pressure on kids. Now adays there is so much competition specially in schools and universties like oh you got a B? Really? Oh you did not got into IBA? Specially in O and A levels. People only consider Agrade walay bachay as intelligent jakay thats not true. Everyone is in their own way. Some can be good in studies some can be good in sports. And just cuz of this competition and grade thingy. Kids are away from sports and exercise which can cause them health issues when they grow up. So i believe that parents but specially teachers should keep guiding their students that how to keep their life balance and etc stuff.
fazeela balochj Mar 12, 2018 08:50am
I think the pressure on students during exams affects their performance adversely. Students from the very begining should be taught to balance their studies, sports and other activities because every thing is equally important. And even parents need to know that pressuring the child will only make things worst for the him and they need to stop comparing their kids with other kids. Comparison is the root cause of putting pressure. One such example is of my own cousin who got a B in Islamiat and while I got A. Her parents pressurized her to give a retake because her parents compared her result with mine.. which disturbed her mentally.