لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمز) کے شعبہ برائے ہیومینٹیز، سوشل سائنسز اور لاء کے ڈین رہ چکے ہیں۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمز) کے شعبہ برائے ہیومینٹیز، سوشل سائنسز اور لاء کے ڈین رہ چکے ہیں۔

چند دن پہلے میں مقامی زبانوں پر ایک مضمون پڑھ رہا تھا۔ مضمون ویسے لکھا تو خوب تھا مگر زبان اور سیکھنے کے حوالے سے صاحبِ تحریر کی منطق نے مجھے بڑا حیران کیا۔

مضمون کے مطابق خیبر پختونخوا میں 17 زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن مردم شماری میں صرف دو، پشتو اور ہندکو، کو ہی باقاعدہ طور پر شمار کیا جائے گا۔ جبکہ دیگر زبانوں کو ’دیگر’ کے خانے میں شامل کر دیا گیا ہے۔

مضمون کے لکھاری نے ان زبانوں کے مٹ جانے کا خدشہ ظاہر کیا اور حکومت سے ان کی بقا کے لیے ان کے تحفظ کا پرزور مطالبہ کیا۔

یہاں تک تو ٹھیک ہے، کیوں کہ چھوٹی زبانوں کا مستقبل اب ایک عالمی خدشہ بن چکا ہے۔ مگر ایک پیراگراف کو مکمل طور پر پڑھنے کی ضرورت ہے:

"کچھ ایسے بھی ماہرین ہیں جن کے مطابق بچے کو ابتدائی جماعتوں میں مادری زبان میں تعلیم دینی چاہیے، جس کے بعد ہی وہ اگلی جماعتوں میں کسی اور زبان کا انتخاب کرے۔ یہ دلیل درست نہیں کیونکہ عمر کے ساتھ زبان سیکھنے کا عمل مشکل ہوتا جاتا ہے۔ لہٰذا آپ کے بچے کو بچپن سے ہی کسی ایک زبان کا انتخاب کر کے اس پر مکمل عبور حاصل کرنا چاہیے— پھر چاہے وہ مقامی زبان ہو جس کی جاب مارکیٹ میں کوئی اہمیت نہیں، یا پھر وہ زبان ہو جو آپ کے کریئر کی ترقی میں آپ کی مدد کر سکتی ہے۔"

یہی خیال پاکستان کی لسانی پالیسی اور والدین کی سمجھ بوجھ کی ترجمانی بھی کرتا ہے، وقت آ گیا ہے کہ اب یہ بات بتائی جائے کہ کیوں یہ ایک گمراہ کن خیال ہے۔ لیکن اس طرح لکھاری کے اصل مقصد کو ٹھیس پہنچنے کا ایک چھوٹا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ صرف زندہ زبانیں ہی آگے بڑھتی ہیں — میوزیم کے نوادرات کی طرح زبانوں کا تحفظ نہیں کیا جا سکتا۔ ملازمت کے لیے بے فائدہ قرار دے ترک کر دی جانے والی زبانیں آہستہ آہستہ اپنا وجود کھوتی جائیں گی۔

پڑھیے: علاقائی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کا بل مسترد

بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مذکورہ دلیل لسانیات اور سیکھنے کی ایک اہم منطق کو بھی رد کر دیتی ہے۔ پہلی بات، ابتدائی عمر میں زبان کے انتخاب اور اس پر عبور حاصل کرنے کا فیصلہ کریئر کو ذہن میں رکھتے ہوئے نہیں کرنا ہوتا۔ بلکہ ایسی زبان کا انتخاب کرنا ضروری ہوتا ہے جو بچوں کے سیکھنے کی صلاحیت بڑھانے میں مدد کر سکے۔

اس بات کے کثیر ثبوت موجود ہیں کہ بچے اپنی زبان میں بہتر انداز میں سیکھتے اور سمجھتے ہیں — اگر ریاضی جیسے مضامین بچوں کی اپنی زبانوں میں پڑھائے جائیں تو انہیں ایسے مضامین سمجھنے میں کافی زیادہ آسانی ہو جاتی ہیں۔

دوسری بات، یہ بات غلط ہے کہ کیونکہ عمر کے ساتھ زبان سیکھنے کا عمل کافی مشکل ہو جاتا ہے، اس لیے بچہ صرف ایک ہی زبان پر بہتر انداز میں عبور حاصل کر سکتا ہے۔

دراصل ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں ہم نے دیکھا ہے کہ وہ بچے جو اپنی زبان میں پڑھنا شروع کرتے ہیں وہ دوسری نامانوس زبان کو زیادہ بہتر انداز میں سیکھتے ہیں، بہ نسبت ان بچوں کے جو شروع سے ہی دوسری نامانوس زبان میں پڑھنا شروع کرتے ہیں۔

کافی تحقیق کرنے کے بعد یورپ نے اب ’مادری زبان پلس ٹو’ فارمولہ اختیار کیا ہے جس کے تحت بچوں کو اسکول کی ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دی جاتی ہے جبکہ ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرنے سے پہلے وہ مزید دو زبانوں پر عبور حاصل کر لیتے ہیں۔

تیسری بات، یہ خیال بھی غلط ہے کہ ایک زبان پر عبور حاصل کرنے کے لیے اسے روز اول سے سیکھنا ضروری ہے، یہ خیال سیکھنے کے عمل کے بارے میں غلط فہمی کی وجہ سے ہے۔

بچے اپنی پہلی زبان بغیر کسی محنت کے سیکھتے ہیں کیونکہ وہ اس زبان سے گھرے ہوتے ہیں اور زندہ رہنے کے لیے اپنی ضروریات دوسروں کو بتانے کے لیے بھی اسی زبان کا سہارا لیتے ہیں۔ اس 'ضرورت کے تحت زبان سیکھنے کے عمل’ کو دیگر غیر زبانوں میں منتقل نہیں کیا جاسکتا۔

مثلاً، اگر کسی سرائیکی محلے میں بچوں کو چینی زبان میں تعلیم دی جائے تو بچے چینی زبان اتنی روانی سے نہیں بولیں گے جتنی روانی سے سرائیکی زبان بول پائیں گے۔ بلکہ ایک انجان زبان میں سیکھنے کی کوشش کرنے سے ان کی سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں کافی متاثر ہوں گی۔

مزید پڑھیے: قومی زبان صرف ایک کیوں؟

چوتھی بات، بالغین غیر زبانیں کافی آسانی کے ساتھ سیکھ جاتے ہیں۔ اگرچہ ان کا تلفظ اتنا صاف نہ بھی ہو لیکن پھر بھی وہ اس زبان زبردست عبور حاصل کر لیتے ہیں۔ ذرا مغربی یونیورسٹیوں میں اردو کے ان دانشوروں کی تعداد دیکھیے جن کی اپنی زبان اردو نہیں تھی لیکن آج بہترین کام کر رہے ہیں— این میری شمل نے بچپن میں تو چار مشرقی زبانوں پر عبور حاصل نہیں کیا تھا۔ فرانس اور جرمنی میں بالغ پاکستانی طلبہ بھی تو وہاں کی زبانیں بعد میں سیکھتے ہیں۔

پانچویں بات، کریئر کے فیصلے نرسری اور کے جی میں نہیں کیے جاتے۔ بلکہ ایسے فیصلے اپنی قابلیت کو مد نظر رکھ کر کیے جاتے ہیں جن کا پتہ بچپن کے بعد ہی چلتا ہے اور قابلیت بہتر تعلیم سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام اور علامہ اقبال کو اپنی ابتدائی تعلیم کے دوران اپنے مستبقل کے کریئرز کا پتہ نہیں تھا، اور نہ ہی انہوں نے ابتدائی تعلیم انگریزی میں حاصل کی تھی۔ اگر انہوں نے انگریزی زبان میں تعلیم حاصل کی ہوتی تو شاید کسی برطانوی دفتر میں بڑے بابو بن جاتے۔

ابتدائی تعلیم میں زبان کی اہمیت کو تو بہت پہلے بھی کئی بار تسلیم کیا جا چکا ہے۔ لارڈ میکالے نے 1835 میں ہندوستانی اشرافیہ کے لیے درس و تدریس کے لیے انگریزی کو بحیثیت ذریعہءِ تعلیم متعارف کروایا، ملازمت کے لیے اس کی اہمیت کی وجہ سے انگریزی میڈیم کی طلب میں زبردست اضافہ ہوا۔

مگر 1904 میں اس پالیسی پر خود جب برٹش نے نظر ثانی کی تو مندرجہ ذیل نتیجہ حاصل ہوا: "یہ سچ ہے کہ انگریزی زبان کمرشل اہمیت رکھتی ہے اور یہ کہ ہائی اسکول کے فائنل امتحانات انگریزی میں ہی لیے جاتے ہیں، لہٰذا سیکنڈری اسکولوں پر قبل از وقت انگریزی پڑھانے اور اسی میں تعلیم دینے کے لیے تھوڑا دباؤ ہوتا ہے۔ مگر اس رجحان کو اب تعلیم کی بہتری کے لیے درست کرنا ضروری ہے۔ ایک عام اصول کے تحت، بچے کو انگریزی زبان کے طور پر سیکھنے کی اس وقت تک اجازت نہیں ہونی چاہیے جب تک کہ وہ ابتدائی تعلیم میں بہتری نہیں لاتا اور اپنی مادری زبان پر مکمل عبور حاصل نہیں کر لیتا۔"

اس کے 100 برس سے زائد عرصہ بعد، جب برٹش کونسل نے پاکستان میں تحقیق کی تو پایا کہ، "مقامی زبانوں کی جانب منفی رویوں اور اردو و انگریزی کو درس و تدریس کی زبان بنانے سے انتہائی بدتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، جن میں بچوں کے اسکول چھوڑنے کی شرح میں اضافہ، تعلیمی کامیابیوں میں کمی، لسانی استحصال اور زبانوں کے وجود مٹنے کا خطرہ شامل ہے۔" تحقیق اس نتیجے پر پہنچی کہ، " ابتدائی تعلیم میں مادری زبان کی اہمیت اجاگر کرنے کی فوری ضرورت ہے۔"

جانیے: زبانیں معاشی ترقی میں کیا کردار ادا کر سکتی ہیں؟

اس پیغام کی سب سے زیادہ ضرورت جن والدین کو ہے، جن کے بچوں کے ساتھ ابتدائی تعلیم خراب انگریزی میں دینے کا دھوکہ کیا جاتا ہے، وہ ایسی تحقیقیں نہیں پڑھتے۔ تعلیم دانوں کو چاہیے کہ وہ اس بارے میں آگاہی پھیلائیں اور حکام کو بھی اس بارے میں قائل کریں۔

یہ بھی دیکھیں کہ چینیوں نے ابتدائی تعلیم میں انگریزی کے استعمال کے بغیر کس طرح زبردست ترقی حاصل کی ہے جبکہ ہم انگریزی کو ابتدائی زبان کے طور پر استعمال کر کے بھی ان سے کافی پیچھے رہ گئے ہیں۔ جبکہ جن چینی افراد کو اپنے کریئر میں ترقی کے لیے انگریزی زبان درکار ہوتی ہے، وہ بھی انگریزی پر عبور حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

دراصل پیغام صرف اتنا سا ہے کہ انگریزی پر عبور حاصل کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ ابتدائی تعلیم انگریزی میں ہی حاصل کی جائے، کیونکہ ایسا کرنے سے سیکھنے اور سمجھنے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ والدین کو یہ بات سمجھنے میں تھوڑی پریشانی ہو لیکن اگر فیصلہ سازوں کو بھی بات سمجھ نہیں آتی تو یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ اگر آپ کو انگریزی آتی ہے تو ضروری نہیں کہ آپ ذہین بھی ہوں۔

یہ مضمون 10 جولائی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (4) بند ہیں

Hameed khan Sep 01, 2017 12:26pm
Absalutely right and scientific approach.
rashid Sep 01, 2017 01:23pm
Totally Agreed
manshoor Bukhari Sep 01, 2017 04:20pm
Great article. Great guidance.Great man.
Hassan akbar Sep 03, 2017 10:43am
جو چیزیں تہذیب /کلچرل کا حصہ بن جاتی ہیں۔ ان کو تبدیل کرنا کافی مشکل عمل ہے ۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں خاص کر ہماری خواتین کے ذہین میں یہ بات پختہ ہوچکی ہے ۔ اگر زیادہ تعلیم یافتہ /ماڈرن نظر آنا ہے ، تو انگریزی زبان میں ہی بات چیت کرنی چاہے ۔ کئی والدین بچپن سے ہی بچوں کو مادری زبان میں بات چیت کرنے سے روکتے ہے ۔ ہمارے، پنجاب میں بچوں کی اس بات ’’کلاس ‘‘لی جاتی ہے کہ انہوں نے پنجابی/سرائیکی میں کیوں بات کی، ان کو اردو یا انگریزی میں بات کرنی چاہے ۔