کراچی کنگز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز تو کامیاب ہوئیں ساتھ ہی لاہور قلندرز باہر بھی ہوگئی۔ یوں پاکستان سپر لیگ کے تیسرے سیزن میں بھی سب سے پہلے باہر ہوجانے کا ’اعزاز‘ قلندروں کو ہی ملا ہے۔ ساتھ ہی ہفتے کو ہونے والے مقابلوں میں ملتان سلطانز اور پشاور زلمی کی شکستوں نے ٹورنامنٹ کو بہت ہی دلچسپ مرحلے میں داخل کردیا ہے۔

اب جہاں دفاعی چیمپیئن پشاور زلمی کی پیش رفت کو سنگین خطرات لاحق ہوگئے ہیں وہیں پہلے 6 میچز میں صرف ایک شکست کھانے والی ملتان سلطانز بھی مسلسل 3 مقابلے ہار کر عرش سے فرش پر واپس آگئی ہے۔

صورتحال یہ ہے کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز پہلی بار پوائنٹس ٹیبل پر نمبر ایک پر پہنچ گئی ہے۔ اس نے اپنے 8 مقابلوں میں سے 5 جیتے اور 10 پوائنٹس کے ساتھ سب سے آگے ہے۔ سرفراز احمد کی قیادت، معین خان کی کوچنگ، ویوین رچرڈز کی نگرانی اور ’اسمیش برادرز‘ کیون پیٹرسن اور شین واٹسن کی بھرپور فارم کی بدولت اس وقت کوئٹہ بہترین مقام پر ہے۔

پھر اسلام آباد یونائیٹڈ ہے جو نیٹ رن ریٹ میں تو کوئٹہ سے پیچھے ہے لیکن پوائنٹس اس کے بھی 10 ہی ہیں۔ اسلام آباد نے مسلسل 4 کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اب بھی اس کے 3 مقابلے باقی ہیں، یعنی یہ ٹیم بھی اس وقت بہترین پوزیشن میں ہے۔

کراچی کنگز بھی کسی سے پیچھے نہیں، گوکہ نمبر ایک مقام کھو بیٹھی ہے لیکن جس طرح اس نے آخری مقابلے میں ملتان سلطانز کو ہرایا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر جو جارحانہ رویّہ یہ ٹیم اب دکھارہی ہے، اس کے بعد کراچی سے کسی بھی کارکردگی کی امید ممکن دکھائی دے رہی ہے۔ کراچی نے 7 میچز میں 9 پوائنٹس لیے ہیں اور اس کو ابھی روایتی حریف لاہور کے ساتھ ساتھ پشاور اور اسلام آباد کے خلاف میچز بھی کھیلنے ہیں۔

ملتان پے در پے مقابلے جیتنے کے بعد دھڑا دھڑ شکستیں کھا چکی ہے اور 9 پوائنٹس کے ساتھ ہی 4 نمبر پر ہے۔ ان مشکل حالات میں ملتان کے لیے 2 پہلو انتہائی مایوس کن ہیں، ایک تو اس کا نیٹ رن ریٹ جو سرِ فہرست 5 ٹیموں میں سب سے کم ہے۔ پھر ’مرے ہوئے کو سو دُرّے‘ مسلسل 3 شکستیں، وہ بھی اُس وقت جب محض ایک میچ باقی بچا ہے جو اس نے مسلسل فتوحات سمیٹنے والی اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف کھیلنا ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس آخری میچ میں کامیابی بہت ضروری ہے، ورنہ ملتان کسی بھی بدترین نتیجے کے لیے تیار رہے۔

اِس وقت سب سے بُرا حال ہے دفاعی چیمپیئن پشاور زلمی کا۔ 8 میچز میں صرف 3 کامیابیاں، 5 شکستیں اور محض 6 پوائنٹس۔ پشاور کے لیے یہ سیزن بہت مایوس کن رہا ہے۔ ایک تو آغاز سے پہلے ہی وہ شکیب الحسن اور ڈیوین براوو جیسے آل راؤنڈرز کی خدمات سے محروم ہوگئی۔

رہی سہی کسر کپتان ڈیرن سیمی اور حسن علی کے زخمی ہونے سے پوری ہوگئی جو کئی میچز نہیں کھیل پائے۔ پھر اِن فارم تمیم اقبال بھی قومی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے چلے گئے۔ یہی نہیں بلکہ شکیب کی جگہ بلائے گئے شبیر رحمان بھی سہ فریقی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کھیلنے تمیم کے ساتھ سری لنکا چلے گئے اور ویسٹ انڈیز کے ایون لوئس ورلڈ کپ کوالیفائرز کھیلنے کے لیے زمبابوے میں ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پشاور مسلسل 3 ناکامیوں کے بعد اِس مقام تک پہنچ گئی ہے کہ اگر آخری دونوں مقابلے نہ جیتی تو باہر ہی ہوجائے گی اور اگر جیت بھی گئی تو دوسروں کے نتائج پر انحصار کرے گی۔

پڑھیے: اسلام آباد نے رولا ڈال دیا!

اس بار بھی پلے-آف میں پہنچیں گی تو 4 ٹیمیں ہی، لیکن باہر 2 بھی ہوں گی، یعنی لاہور قلندرز کے ساتھ ساتھ کوئی اور بھی ٹیم ہمیں دوسرے مرحلے میں نظر نہیں آئے گی۔ اب وہ پشاور ہوگی یا ملتان؟ یا پھر کوئی اور؟ اس کا فیصلہ اگلے چند دنوں میں شارجہ میں ہوگا۔

اس سے پہلے کہ باقی مقابلوں میں ٹیموں کے امکانات اور کچھ تازہ پیش رفت پر نظر ڈالیں، پلے-آف مرحلے کو سمجھنا ضروری ہے کیونکہ اسی صورت میں ہم جان پائیں گے کہ ٹیمیں کس طرح آگے جا رہی ہیں۔

ابتدائی مرحلہ مکمل ہونے پر پوائنٹس ٹیبل پر سرِ فہرست 2 ٹیمیں پلے-آف مرحلے کے پہلے مقابلے میں ٹکرائیں گی اور یہاں جو جیتے گا وہ براہِ راست فائنل میں پہنچ جائے گا جو 25 مارچ کو کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ہوگا۔

اس مرحلے کے باقی دونوں مقابلے Eliminator ہوں گے یعنی جو ہارا، مقابلے کی دوڑ سے باہر۔ یہاں ہم پہلے پوائنٹس ٹیبل پر 3 اور 4 نمبر آنے والی ٹیموں کو کھیلتا دیکھیں گے، جس میں ہارنے والی ٹیم تو باہر ہوجائے گی اور جیتنے والی پہلے پلے-آف کے شکست خوردہ سے کھیلے گی۔ جو ٹیم جیتی، وہ فائنل میں اور جو ہاری وہ باہر۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ براہِ راست سیمی فائنلز کھیلنے کے بجائے آخر یہ لمبا راستہ کیوں اختیار کیا گیا؟ دراصل طویل سیزن کھیلنے کے بعد بالائی 2 نمبروں پر آنے والی ٹیموں کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ محض ایک شکست انہیں دوڑ سے باہر نہ کرے۔ جیتنے والی ٹیم حقدار ہے کہ وہ براہِ راست فائنل میں جائے اور جو ہارے، اسے بھی یکدم دیس نکالا نہ ملے۔

پڑھیے: پی ایس ایل میچز میں پرجوش بھارتی شائقین کی شرکت

3 اور 4 نمبر پر آنے والی ٹیموں کو پیچھے رہ جانے کی سزا یہ دی جاتی ہے کہ ان کے لیے فائنل تک پہنچنا آسان نہیں رکھا گیا۔ ایک تو انہیں آپس میں کھیل کر ثابت کرنا ہوگا کہ دراصل فائنل میں پہنچنے کے لیے آخری مقابلہ کھیلنے کا حقیقی دعویدار کون ہے اور پھر پہلے پلے-آف میں ہارنے والی سے بھی کھیلنا ہوگا۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس عمل کے ذریعے واقعی 2 ایسی ٹیمیں فائنل تک پہنچیں گی جو تمام سرد اور گرم سہنے کے بعد اعزاز کی حتمی جنگ لڑتی ہیں۔

ملتان اور پشاور دونوں اِس وقت پوائنٹس ٹیبل پر تو مصیبت میں ہیں ہی لیکن انہیں ایک اور پریشانی لاحق ہے کہ اُنہیں مزید کوئی تازہ دم کھلاڑی نہیں ملنے والا۔ ان کے مقابلے میں باقی 3 ٹیمیں، یعنی اسلام آباد، کراچی اور کوئٹہ، نہ صرف بہتر مقام پر ہیں بلکہ اُن سب کے لیے بڑی خوش خبریاں بھی ہیں۔

اسلام آباد یونائیٹڈ مسلسل 4 میچز جیت چکی ہے اور جلد ہی اسے 2 اہم کھلاڑیوں کا ساتھ بھی ملنے والا ہے۔ دراصل نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے درمیان ون ڈے سیریز ختم ہوچکی ہے اور کئی کھلاڑی اب قومی ذمہ داریوں سے آزاد ہوکر اپنی ٹیموں کو واپس آ رہے ہیں، جیسا کہ طوفانی اوپنر ایلکس ہیلز اور وکٹ کیپر سیم بلنگز جلد ہی دبئی پہنچ کر اسلام آباد کی مہم کے حتمی مرحلے میں حصہ لیں گے۔

پھر کراچی کنگز کے لیے بھی حوصلہ افزاء خبر ہے کہ ایون مورگن بہت جلد اُن کی جانب سے ایکشن میں نظر آئیں گے۔ بدقسمتی سے نیوزی لینڈ کے کولن منرو کھیلنے نہیں آ رہے، ورنہ کراچی کے امکانات سب سے زیادہ ہوجاتے۔

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز تو ویسے ہی ٹاپ پر ہے اور مزید حوصلوں کو بڑھائے گی جیسن روئے کی آمد جو پچھلے سیزن میں لاہور قلندرز کی جانب سے کھیلے تھے۔ لیکن اس بار بہت اہم مرحلے پر کوئٹہ کی جانب سے کھیلیں گے۔

یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ حالیہ نتائج، پوائنٹس ٹیبل پر پوزیشن، فارم اور تازہ دم کھلاڑیوں کی آمد سے اسلام آباد، کراچی اور کوئٹہ کی ٹیمیں اب واقعی بہت مطمئن ہوں گی۔ لیکن ملتان اور پشاور کو سخت مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

دیکھتے ہیں آج یعنی اتوار کو کراچی اور لاہور کے مقابلے کے بعد شارجہ مرحلے میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

تبصرے (0) بند ہیں